پاکستان کے شمالی پہاڑی صوبے گلگت بلتستان کے کسان ، قاسم شاہ کو کاشتکاری ترک کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ “ٹراؤٹ فارمنگ روایتی فصلوں سے زیادہ منافع بخش ہے۔ فصلیں اور پھل آب و ہوا کے لحاظ سے حساس ہوچکے ہیں اور ان کے ساتھ سرمایہ کاری ضائع ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے ،” شاہ نے بتایا جو ضلع غزر میں نجی فش فارمز ایسوسی ایشن کے نائب صدر بھی ہیں۔
گلگت بلتستان میں ٹراؤٹ فارم پھیلتے جا رہے ہیں جہاں تیزی سے پگھلتے گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی کے ذخیرے ٹراؤٹ کی افزائش کے لئےخاص ہیں۔ صوبہ بھر میں 10 سال سے بھی کم عرصے میں قریب 200 فش فارم قائم ہوچکے ہیں ، ساتھ ہی ہر ماہ نئے فارم تیار ہورہے ہیں۔ ہمسایہ صوبہ خیبر پختون خوا میں بھی مچھلی کے فارموں میں تیزی آ رہی ہے ، جہاں حکومت کو ملازمتیں پیدا کرنے کی امید ہے۔ ان میں سے ہر ایک فارم میں ،تقریباً 20،000 ٹراؤٹ کی خوراک کے بطور فروخت کے لئے افزائش کی جاتی ہے۔
چونکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہے ، گلگت بلتستان میں روایتی فصل کے کاشت کار ٹراؤٹ کا انتخاب کررہے ہیں ، جس کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ یہ آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں ، کاشت کار کم ہوتی ہوئی پیداوار اور غیر یقینی آمدنی کے لحاظ سے خود کو بدل رہے ہیں۔ کچھ شاہ جیسے کاشتکار، فصلوں کی کاشت سے آگے ذرائع دیکھ رہے ہیں-
200
محکمہ فشریز کے ڈپٹی ڈائریکٹر اکرام اللہ کے مطابق ، گلگت بلتستان میں آج مچھلیوں کے فارموں کی تعداد 2012 میں 16 سے بڑھ گئی ہے۔
محکمہ اگلے پانچ سالوں میں 500 فارموں کا ہدف رکھتا ہے۔
“میں نے کوروناوائرس وبا کے باوجود گذشتہ سیزن کے اختتام پر 500،000 پاکستانی روپے [3،285 امریکی ڈالر] منافع میں کمائے۔ اس سیزن میں ، میرا ہدف کہیں زیادہ ہے۔” قاسم شاہ نے مزید بتایا- شاہ نے قریباً 1 ملین روپے کی سرمایہ کاری سے 2018 میں مچھلی کی کاشتکاری کا آغاز کیا۔ انہوں نے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو تلی ہوئی ٹراؤٹ فراہم کرنے کے لئے فارم کے قریب ایک چھوٹا سا ہوٹل قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نقل و حمل اور پیکیجنگ کی سہولیات مہیا کرتی ہے تو ، وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ مچھلی چین کو بھی برآمد کرسکیں گے۔
شاہ نے کہا ، “میرے گاؤں کی زمین فصلوں اور پھلوں کے لئے انتہائی زرخیز ہے لیکن غیر متوقع بارشوں اور دیگر موسمی مضمرات جیسے کیڑوں کے بار بار حملوں نے کچھ سالوں سے پیداوار کو خراب کردیا ہے۔”
شمالی پاکستان میں ٹراؤٹ
پاکستان میں ٹراؤٹ کی تین اقسام ہیں: اسنو ٹراؤٹ ، رینبو ٹراؤٹ اور براؤن ٹراؤٹ۔
اب یہ شاذونادر ہی افزائش گاہوں سے باہر قدرتی ماحول میں نظر آتی ہیں- اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق ، اسنو ٹراؤٹ اس خطے کے لئےمقامی ہے اور دیگر دو اقسام کو سن 1920 کی دہائی میں چترال اور کاغان وادیوں میں انگریزوں نے متعارف کرایا تھا۔
2007 میں ہونے والے ایک مطالعے میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 45 جھیلیں ہیں جن میں سے 12 میں 2007 میں ٹراؤٹ (زیادہ تر اسنو ٹراؤٹ) کے ذخیرے موجود تھے-
حکومت ٹراؤٹ کی افزائش اور مچھلی کے نجی فارموں کی معاونت کرتی ہے۔ اپریل میں ، وفاقی حکومت نے پہاڑی صوبوں میں مچھلی کے فارموں کو فروغ دینے کے لئے 112 ملین روپے (730،000 امریکی ڈالر) مختص کیے تھے۔ منسٹری فار نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان میں جھینگے اور مچھلی کے فارموں کی تیاری ہے جو روزگار پیدا کرے گا ، خوراک کے عدم تحفظ کو بہتر کرے گا اور اس سے برآمدی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
اس معاونت میں مچھلی کی کاشتکاری کے لئے اراضی کے حصول کے بارے میں تربیت اور آگاہی سیشنز ، کاشتکاروں کو نجی ہیچریوں کے لئے بینک سےقرض حاصل کرنے اور فش فیڈ کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔
آلودگی کا خوف اور اس سے انکار
کچھ ہیچریوں سے گندا پانی براہ راست دریائے سندھ اور نہروں میں بہتا ہےجو کمیونٹیز کے لئے پینے کے صاف پانی کا ذریعہ ہیں۔
صوبے کے ماہی گیری کے محکمہ کے ایک افسر علی اصغر نے تصدیق کی کہ “کچھ فارموں سے گندہ پانی زیادہ تر ندیوں میں بہایا جاتا ہے”۔
اصغر نے کہا ، “اگر کسان لاپرواہی دکھاتے ہیں تو ، یہ پینے کے پانی کو آلودہ کر سکتا ہے ،” اگرچہ وہ دریا میں بڑے پیمانے پر آلودگی سے انکارکر رہے ہیں۔ جب سے صوبے میں مچھلی کے فارموں میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے اس کے بعد سے اب تک کوئی مطالعہ یا ماحولیاتی اثرات کی تشخیص نہیں کی گئی ہے۔ سن 2014 میں ، صوبے کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے تحت آبی وسائل پر کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ صرف 22 فیصد عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ہیں-
ایک اور اہلکار نے بتایا کہ محکمہ کو ان علاقوں سے شکایات موصول ہوئی ہیں جہاں مقامی لوگ براہ راست پینے کے لئے فارموں سے پانی استعمال کررہے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے ، انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں میٹھے پانی کے ذرائع “نہ صرف ان فارموں کی وجہ سے آلودہ ہیں ، بلکہ ہوٹلوں خاص طور پر فارموں کے قریب بنائے گئے ہوٹلوں سے آنے والے فضلے سے بھی ۔
محکمہ فشریز کے ایک ریسرچ آفیسر کریم جوہر نے کہا: “ہماری توجہ ٹراؤٹ کی افزائش نسل اور ماحول کی حفاظت کے طریقوں سے آگاہی پیدا کرنے پر ہے۔” انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا: “ہم نے یہاں تک کہ کچھ فارموں بشمول ایک سرکاری ہیچری کو بھی بند کردیا، جہاں سے ہمیں آلودہ پانی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔”
پچھلے ایک سال میں ، محکمہ نے مچھلی فارموں سے متعلق 96 جرائم درج کیے اور 100،000 روپے (649 امریکی ڈالر) کا جرمانہ عائد کیا۔
جوہر نے کہا کہ ہر ضلع کا ماہی گیری محکمہ سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے اور کاشتکاروں کو پائیدار طریقوں سے آگاہ کرتا ہے۔ تربیت میں فارم کا انتظام ، مچھلی کے تالابوں کی ساخت ، پانی کا ارتکاز، فیڈ کی فراہمی ، پانی اور حفظان صحت اور ماحولیاتی حساسیت کے بارے میں رہنمائی شامل ہے۔
“ان فارموں سے آنے والی مچھلی کا خوراک یا فضلہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ماحول کو متاثر کرے یا دریاؤں کو خطرناک طور پر آلودہ کرے،” جوہر نے کہا- انہوں نے مزید کہا: “ان دریاؤں کی لہریں اور بہاؤ اتنا طاقتور ہے کہ یہ قدرتی طور پر کسی بھی چھوٹی سطح کی آلودگی کو چھان لیتا ہے۔”
لیکن جیسے جیسے پاکستان میں مچھلی کے فارموں کی تعداد بڑھے گی، آلودگی اور پائیدار طریقوں کے بارے میں خدشات بڑھتے جائیں گے۔
ضلع غزر کے بیرگل گاؤں میں رہنے والے برکت علی نے بتایا کہ ایک گاؤں میں قائم تقریبا 30 بڑے اور چھوٹے مچھلی فارموں سے کچرا سیدھا دریا غزر میں جاتا ہے جو دریائے سندھ کی ایک ذیلی ندی ہے۔ انہوں نے کہا ، “اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو یہ نکاسی آب پینے کے پانی کو آلودہ کرسکتی ہے۔”
تاہم ، کسان قاسم شاہ نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کردیا۔ “ہم ماحول کے بارے میں ذمہ دار اور انتہائی حساس ہیں۔ ہم آلودگی سے بچنے کے لئے ہر اقدام کرتے ہیں،” انہوں نے بتایا- انہوں نے کہا کہ کاشتکار مچھلی کی خوراک میں کیمیکل استعمال نہیں کرتے اور “گندگی پھیلانے کے حوالے سے سخت ہیں”۔
ضلع غزر کے بیرگل گاؤں میں رہنے والے برکت علی نے بتایا کہ ایک گاؤں میں قائم تقریبا 30 بڑے اور چھوٹے مچھلی فارموں سے کچرا سیدھا دریا غزر میں جاتا ہے جو دریائے سندھ کی ایک ذیلی ندی ہے۔ انہوں نے کہا ، “اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو یہ نکاسی آب پینے کے پانی کو آلودہ کرسکتی ہے۔”
تاہم ، کسان قاسم شاہ نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کردیا۔ “ہم ماحول کے بارے میں ذمہ دار اور انتہائی حساس ہیں۔ ہم آلودگی سے بچنے کے لئے ہر اقدام کرتے ہیں،” انہوں نے بتایا- انہوں نے کہا کہ کاشتکار مچھلی کی خوراک میں کیمیکل استعمال نہیں کرتے اور “گندگی پھیلانے کے حوالے سے سخت ہیں”۔
مچھلی کی خوراک کا ماحول پہ اثر
حالیہ برسوں میں ، بڑی تعداد میں فارم چھلیوں کی افزائش سے جنگلی مچھلیوں کو لاحق خطرے کی وجہ سے ان پر تنقید کی جارہی ہے۔ بڑے تجارتی مچھلی فارموں کو سمندروں سے ٹنوں مچھلیاں پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مچھلی کی خوراک بنائی جاسکے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ماہی گیری اور آبی زراعت کے ماہر فرید احمد جان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس وقت گلگت بلتستان کے کسان ہول سیل مارکیٹوں سے فارغ شدہ مچھلیوں کا استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا: “مچھلی کی خوراک کے لئے براہ راست مچھلی پکڑنے میں سرمایہ کاری کرنا کوئی مالی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس سے ٹراؤٹ کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔”
پاکستان میں مچھلی کے فارموں سے لاحق مضمرات اور نگرانی
گلوبل ایکواکلچر الائنس این جی او کی ایک رپورٹ کے مطابق ، مچھلیوں کے فارموں سے وابستہ عام ماحولیاتی خدشات میں غذائی اجزاء اور فضلے میں اضافہ اور مقامی فشریز میں پھیلنے والی بیماری شامل ہیں۔
“غذائی اجزاء میں بڑھاوا تب ہوتا ہے جب علاقے میں مچھلیوں کی کثیف تعداد ہو- مچھلی فضلہ پیدا کرتی ہے ، اور ان کا فضلہ آس پاس کے علاقے میں جمع ہوتا ہے۔ اس سے پانی میں آکسیجن کی مقدارگھٹتی جاتی ہے جس سے کائی اور ڈیڈ زون پیدا ہوتے ہیں،” رپورٹ میں بتایا گیا-
اس میں باڑوں کے آس پاس کھلے پانیوں کی مچھلیوں سمیت ماحولیاتی نظام پر اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی- اس رپورٹ نے غیر مقامی مچھلیوں کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا، جو خوراک کے لئے مقامی مچھلیوں سے مقابلہ کرسکتی ہیں ،اور ممکنہ طور پر مقامی نسلوں کو بے گھر کرسکتی ہیں۔
فرید احمد جان نے کہا کہ نجی فارم مالکان کو تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے غزر میں ہونے والے ایک حالیہ واقعے کے بارے میں بات کی ، جہاں “پرائیویٹ فارم میں 3 ٹن ٹراؤٹ مر گئیں کیونکہ باڑے کی تہہ کی مناسب صفائی صاف نہیں کی جارہی تھی- “
“یہ کھیت بہت قریب قریب بنائے گئے ہیں اور پانی کے تمام چینلز آپس میں منسلک ہیں۔ اگر کسی میں بیماری پھوٹ پڑتی ہے تو ، یہ تیزی سے قریبی کھیتوں میں پھیل جاتی ہے ، “فرید احمد جان نے بتایا۔ “ابھی ، ٹراؤٹ فارموں کو فروغ دینے پر خاص توجہ دی جارہی ہے اور کسان اس موقع کے لئے فوراً تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لیکن اگر وہ مستقل طور پر ٹراؤٹ فارم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ماہرین کی بات سننے کی ضرورت ہے۔”
فرید احمد جان نے یہ بھی کہا کہ اگر کھلے پانی کی مچھلیوں کی بجائے فارموں سے مقامی طلب پوری کی جاسکے تو پاکستان میں ٹراؤٹ فارم ٹراؤٹ آبادی کے تحفظ میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں- “اگر ابھی ان کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تو صوبے میں ٹراؤٹ آبادی کا خاتمہ ہو جائے گا ،” انہوں نے کہا- “اس وقت ٹراؤٹ فارمز اشرافیہ کی طلب پوری کررہے ہیں کیونکہ ان کی مچھلیاں مہنگی ہیں۔ نتیجتاً ، مقامی لوگ براہ راست دریاؤں اور ندیوں پر جاتے ہیں تاکہ ٹراؤٹ پکڑ سکیں اور اس طرح کھلے پانیوں کی مچھلی کا ذخیرہ گھٹتا جارہا ہے۔”
ڈبلیو ڈبلیو ایف کےعلاقائی سربراہ برائے ماحولیاتی تحفظ ، رضا حیدر نے کہا کہ پاکستان میں ٹراؤٹ فارم مالکان کو اپنی سرگرمیوں میں ماحولیاتی مشکلات کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ، “ہمیں غذا کے ساتھ ساتھ صحت مند ماحول کی بھی ضرورت ہے۔”