پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں واقع گاؤں سید پور کے رہائشی عامر کیانی کہتے ہیں، “کچھ سال پہلے تک، ہم نے اپنے علاقے میں چیتے کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا۔” “لیکن کچھ عرصہ پہلے، ہم نے کئی دنوں تک ایک مادہ چیتے کو اپنے بچوں کے ساتھ دیکھا۔ اس سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
نومبر 2022 میں چیتوں کے سید پور گاؤں میں داخل ہونے کی اطلاع ملی تھی (حالانکہ رپورٹیں دیکھی گئی تعداد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں)۔ کیانی کا کہنا ہے کہ چیتوں نے ایک گھر کی چھت پر موجود مویشیوں پر حملہ کیا اور گاؤں والوں کے کم از کم ایک مویشی کو ہلاک کر دیا۔
سید پور اسلام آباد کے بالکل شمال میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے قریب قریب 12 گاؤں میں سے ایک ہے۔
آئی ڈبلیو ایم بی کے سابق سربراہ اور ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے بانی رکن انیس الرحمان کہتے ہیں کہ چیتوں کا نظر آنا پارک میں “ماحول کی بہتری کی طرف اشارہ” ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب اگر کوئی شہری صبح کے اوقات میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر جائے تو اسے بارکنگ ہرن اور دیگر جنگلی حیات نظر آئینگے۔‘‘
بدقسمتی سے، مقامی کمیونٹیز میں چیتوں کا خوف، نیز دیہاتیوں اور جنگلی بلیوں کے درمیان مدبھیڑ کے واقعات کا خطرہ ان فوائد پر بھاری ثابت ہورہا ہے۔
پاکستان بھر میں انسانوں اور چیتوں کے بیچ تصادم
مارگلہ پہاڑیوں کے علاقے میں چیتوں کی رپورٹیں کم از کم 2015 سے گردش کر رہی ہیں لیکن 2019 کے بعد سے ان میں اضافہ ہوا ہے
چیتوں سے مویشیوں کے نقصان کی وجہ سے، مارگلہ پہاڑیوں کے قریب دیہاتی 2021 میں ان جنگلی بلیوں کے لئے زہر آلود گوشت رکھنے کی رپورٹس ملیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اسلام آباد کے قریب چیتے کی دو ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دسمبر 2021 میں، مردہ پائے جانے والے چیتے کے ٹشو کے نمونے پوسٹ مارٹم کےلئے بھیجے گئے۔ حالانکہ رپورٹ میں کہا گیا کہ کوئی پیتھوجن نہیں پایا گیا، لیکن ساتھ ہی نمونوں کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا، اور بتایا گیا کہ ٹشو کے نمونوں کے لئے کولڈ چین کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، اور یہ کہ وہ پرانے تھے اور سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس تنقیدی تبصروں کا مطلب ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کو قطعی ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ چیتے کی موت کیسے ہوئی ہو گی۔ دوسرا چیتا دسمبر 2022 میں ٹیکسلا ہائی وے پر گاڑی سے تصادم میں مارا گیا تھا۔
اسلام آباد کے اردگرد اموات اور انسانی چیتے کے ممکنہ تصادم کا یہ مسئلہ پاکستان کے دیگر خطوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کے جنوب مشرقی ضلع تھرپارکر کے ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور کا کہنا ہے کہ دو تیندوے، جنہیں خبروں میں غلط طور پر چیتا بتایا گیا، کو حالیہ مہینوں میں دیہاتیوں نے مویشیوں پر حملہ کرنے پر ہلاک کر دیا۔ تالپور کا کہنا ہے کہ چیتے کو مارنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کی مانیٹرنگ آفیسر شائستہ علی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں گزشتہ پانچ سالوں میں 30 چیتے غیر فطری موت کا شکار ہو چکے ہیں، جب کہ چار انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ دریں اثنا، پاکستان کے شمالی صوبہ خیبر پختونخوا کے مانسہرہ میں جنگلی حیات کے انچارج ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر سرمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں تین تیندوے مارے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں چیتے کی سب سے بڑی آبادی ایوبیہ نیشنل پارک اور خیبر پختونخواہ کے گلیات اور ایبٹ آباد کے ملحقہ علاقوں میں پائی جاتی ہے جو مارگلہ کی پہاڑیوں کے بالکل شمال میں واقع ہے (گلیات پنجاب کے کچھ حصوں تک پھیلی ہوئی ہے)۔ ایوبیہ نیشنل پارک کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر سردار نواز کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق اس خطے میں 1993 سے اب تک 112 چیتے لوگوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں لیکن گزشتہ دو سالوں میں صرف تین تیندوے مارے گۓ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2000 سے 2016 کے درمیان خطے میں چیتے کے حملوں میں “کم از کم 15 قیمتی انسانی جانیں” ضائع ہوئیں۔
عالمی سطح پر معدومیت کے خطرے سے دوچار سمجھے جانے والے، چیتے کی ایشیا میں واضح کمی واقع ہوئی ہے، جہاں یہ انواع اپنی سابقہ حد کے 83 فیصد سے زائد معدوم ہو چکی ہے۔ پاکستان میں چیتے کے احوال کی ایک جامع تصویر حاصل کرنا مشکل ہے: ملک بھر میں چیتے کی تعداد یا اموات کا کوئی مربوط ڈیٹا بیس نہیں ہے، اور ہر صوبہ یا علاقہ اپنے طریقے سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے، کچھ سروے ہر دو یا تین سال بعد کرتے ہیں، اور دیگر صرف ہر پانچ سال بعد۔
پاکستان میں چیتے کی پناہ گاہ کی بحالی
انیس الرحمان 2019 کی سنسنی کو یاد کرتے ہیں، جب مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کیمرہ ٹریپ کے ذریعے چیتے کی پہلی بار تصویر کشی کی گئی تھی۔ “ہم نے فیصلہ کیا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دوسری نسلوں کو پھلنے پھولنے کے لئے بہتر مواقع فراہم کریں۔”
اگرچہ گزشتہ برسوں کے دوران مقامی باشندوں کو بعض دفعہ نظر آۓ ہیں، زیادہ تر کمیونٹیز اور منتظمین کی رائے تھی کہ علاقے سے چیتے غائب ہو چکے ہیں۔ 2017-18 میں کی گئی ایک تحقیق میں، محققین کو مارگلہ پہاڑیوں کے علاقے میں تقریباً چھ تیندووں کے شواہد ملے جن کے گوبر اور علاقائی نشانات تھے لیکن ان کے پاس اس علاقے کا جامع سروے کرنے کے لئے کافی تعداد میں کیمرہ ٹریپ نہیں تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ، اس وقت، جب کہ کچھ کمیونٹیز نے اپنے مویشیوں کی کمی کی اطلاع دی تھی، لیکن انہیں چیتے نہیں نظر آۓ۔
اس کے بعد سے حالات کافی حد تک بدل گۓ ہیں، کیمرہ ٹریپس علاقے میں چیتوں کی ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی طرف سے دکھنے اور تصادم کی اطلاعات دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ڈبلیو ایم بی کے بنگش کہتے ہیں، ’’کیمرہ ٹریپس اور زمینی تجزیوں کی بنیاد پر مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کم از کم آٹھ چیتے ہیں۔
رحمان کا کہنا ہے کہ تیندووں کی موجودگی کی تصدیق کے بعد پارک میں درختوں کی کٹائی اور غیر قانونی شکار کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کئے گئے تھے۔ “ہم نے وہاں گارڈز کی تعداد بڑھا دی۔ ہم نے انسانی مداخلت کو کم کرنے کی کوشش کی اور کچھ علاقوں میں لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی۔ کچھ علاقوں میں گاڑیوں کی نقل و حرکت پر پابندی تھی، اور درخت لگائے گئے تھے۔
رحمان کہتے ہیں، ’’آج ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ماحولیاتی نظام بحال ہو رہا ہے،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شکار کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور چیتے بھی اس کے پیچھے آئے ہیں۔
ایبٹ آباد کے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے نواز، بتاتے ہیں کہ اگست 2022 میں ان کا آخری سروے جو ہر تین سال بعد کیا جاتا ہے، نے گلیات کے علاقے میں چیتے کے کم از کم 40 جوڑوں کا انکشاف کیا۔ پچھلے سروے میں 35 جوڑے شمار کئے گئے تھے۔ یہ علاقہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب ہے۔
رحمان کے مطابق، چیتے کے دوبارہ ابھرنے سے جنگلی سؤروں کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے ، جو اسلام آباد میں نقصان پہنچانے کے لئے جانا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں،”جنگلی سؤر چیتے کا پسندیدہ شکار ہے۔ چیتوں کی وجہ سے، جنگلی سؤروں کی آبادی اب قابو میں ہے‘‘۔
پاکستان میں انسانوں اور چیتوں کے درمیان تنازعات کو کیسے کم کیا جائے
کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کی شائستہ علی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انسان چیتے تنازع کی بنیادی وجہ چیتے کی پناہ گاہوں کے قریب لوگوں کی موجودگی اور جنگلات اور قدرتی وسائل پر ان کا مشترکہ انحصار ہے۔
وہ کہتی ہیں،”انسان ایندھن اور فرنیچر کے لئے جنگل کی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔ جس کی وجہ سے چیتے اور جنگلی حیات کے مسکن تباہ ہو رہے ہیں‘‘۔ کشمیر میں، سردیوں کے مہینوں میں مسئلہ عروج پر ہوتا ہے، کیونکہ چیتے اور ان کے شکار اونچے پہاڑوں سے زیادہ انسانی سرگرمی والے علاقوں میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے چیتے مویشیوں کا شکار کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ایک وکیل ظفر اقبال، جو ماحولیاتی مسائل پر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ زمین کا استعمال پاکستان کی جنگلی حیات کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، جیسا کہ ملک کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے، اسی طرح رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے لئے ممکنہ منافع بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات کے خلاف عدالتوں میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں اور دیگر علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں انسداد تجاوزات مہم کے نتیجے میں درجنوں عمارتیں مسمار کی گئیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کے حکام چیتوں کے مسکن کو مزید تجاوزات سے صرف اسی صورت میں بچا سکتے ہیں جب حکومت ریئل اسٹیٹ کی توسیع مینیج کرنے میں ان کی مکمل مدد کرے۔
مانسہرہ کے ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر شاہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چیتے کے تحفظ کا بہترین طریقہ واضح قانون سازی ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کون سے علاقے اور جنگلات صرف جنگلی حیات کے لئے ہیں اور کن تک انسانوں کو بھی رسائی حاصل ہے۔