کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایک استاد مونا خان کے لئے ، گلگت بلتستان (جی بی) میں پہاڑوں پر جانے کے لئے چھ دن کی چھٹی لینا ایک شعوری لیکن “مشکل فیصلہ” تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ وہ “مقامی لوگوں کو کورونا وائرس سے متاثر کر سکتی ہیں-“
اس موسم گرما میں ، قریب 200،000 افراد نے گلگت بلتستان کا سفر کیا ، اور بہت سے دیگر افراد صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) گۓ ہیں- کوویڈ 19 کے کیسز میں کافی حد تک کمی آنے کے بعد حکومت نے 8 اگست کو سیاحت سمیت مختلف شعبوں کو باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا۔ لیکن سیاحت کے لئے گرین سگنل سے کوویڈ 19 سے متعلق پروٹوکول کا ناقص نفاذ نمایاں نظر آرہا ہے جو پہلے ہی سے مخدوش ہیلتھ کیئر کے نظام پر سنگین مضمرات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے-
سیاحت کی بحالی
جب حکومت نے سیاحت کو “کنٹرول” انداز میں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تو ، تو خیال یہ تھا کہ شروعات نسبتا-کم رابطے ، کم بھیڑ والے کاروبار جیسے کوہ پیمائی ، ٹریکنگ ، پیرا گلائڈنگ اور راک کلائمبنگ جیسی سرگرمیوں سے ہوگی۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر سیاحت کی صنعت سے منسلک براہ راست اور بالواسطہ طور پروابستہ لوگوں کے موسمی کاروبارکو بحال کرنے کے لئے لیا گیا تھا – جو کہ کے پی میں کم وبیش دس لاکھ افراد کا روزگار ہے۔
نیشنل ٹورزم کوآرڈینیشن بورڈ کے تحت قائم کردہ “ٹورازم ریکوری کمیٹی” کے چیئرمین آفتاب رانا نے کہا کہ یہ درست سمت میں ایک قدم تھا کیونکہ پاکستان نے “زاویہ برابر” کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مسلسل کم تعداد میں نئے کیسزکی اطلاع مل رہی تھی۔ ملک بھر میں روزانہ نئے انفیکشن کی سرکاری تعداد 7 اگست کو 842 سے کم ہو کر 24 اگست تک 450 ہو گئی۔
“گلگت بلتستان کی حکومت نے علاقہ کھولنےکا جو فیصلہ لیا ہے اس سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو بے حد غربت میں گرنے سے روکے گا کیونکہ سیاحت ہی انکی معاش کا واحد ذریعہ ہے ،” رانا نے کہا۔ “گلگت بلتستان کے دیہی علاقوں میں لوگ تھوڑی بہت کھیتی باڑی کاشتکاری کر سکتے ہیں اور مویشی پال سکتے ہیں ، لیکن بڑھتی آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔”
قواعد کا ناقص نفاذ
صوبے کے سیاحت کے ڈائریکٹر ، اقبال حسین نےتھرڈ پول کو بتایا ، “اس سال ،گلگت بلتستان متمول سیاحوں کی آمد زیادہ ہوئی ہے جو عام طور پر موسم گرما کی تعطیلات کے لئے بیرون ملک جاتے تھے۔”
مونا خان نے کہا کہ انہوں نے “ذمہ داری سے” سفر کیا اور حکومت کے تیار کردہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کی پاسداری کی۔
سیاحوں کے لئے گلگت بلتستان میں داخلے کے ضوابط میں کوویڈ 19 ٹیسٹ کے منفی نتائج کا ثبوت ، تصدیق شدہ ہوٹل کی بکنگ اور سفری تفصیلات شامل ہیں تاکہ ٹریسنگ کو سہل بنایا جاسکے – قواعد میں کہا گیا ہے کہ تمام داخلی مقامات پر مسافروں کی اسکریننگ اور اندراج کروائی جائے اور مشتبہ مریضوں کو فوری طور پر ان کے اپنے خرچ پر قرنطین کیا جائے-
رہائش کے لئے ، صرف زیادہ گنجائش والے ہوٹلوں کو کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے ، چھوٹے ایک یا دو بیڈروم والے گیسٹ ہاؤسز کو شامل نہیں کیا گیا- ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ دو مہمانوں کی اجازت ہے ، اور ہوٹل کے عملہ اور مہمانوں کو عوامی مقامات پر ہر وقت ماسک پہننا لازم ہے۔
خان نے کہا ، “ہم [خان اور اس کی بہن]نے سفر کرنے سے پہلے کوویڈ 19 کا ٹیسٹ کروایا تھا ، ماسک ہمیشہ پہنا کرتے تھے ، اپنے ہاتھ کثرت سےصاف کرتے تھے اور ہم کسی جگہ پر بیٹھتے تو بیٹھنے سے پہلے اور اٹھتے جگہ کو ضرور جراثیم کش سے صاف کرتے۔” انہوں نے مزید بتایا کہ ” بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لئے انہوں نے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں لوگ کم جاتے تھے”- انہوں نے واپسی کے بعد 14 دن تک خود کو قرنطینیہ میں بھی رکھا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اگر وہ وائرس ساتھ لائی ہیں تو دوسروں کو متاثر نہ کرسکیں۔
لیکن بہت سے لوگ حکومت کی جانب سے لاگو ایس او پیز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اپنے سفر کے دوران ، مونا خان نے کہا کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سماجی فاصلے ، ماسک پہننے اور صفائی ستھرائی کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرتے دیکھا- اور جن چار ہوٹلوں میں انہوں نے قیام کیا وہاں کے منتظمین پوچھا کہ آیا ان کے پاس کوویڈ 19 ٹیسٹ رپورٹس ہیں ، لیکن کہیں بھی ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ اپنی ٹیسٹ رپورٹس ہوٹل عملے کو دکھائیں-
ایک خاتون جو اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ لاہور سے گلگت بلتستان تک سفر کررہی تھیں نے بتایا کہ ان میں سے کسی کا بھی ٹیسٹ نہیں کروایا گیا تھا۔ “میں ٹیسٹ کے لئے فی کس 6،000 روپے [تقریبا 36 امریکی ڈالر] ادا کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ہمارے پاس ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم سب ٹھیک ہیں اور کسی میں کورونا وائرس کی علامات نہیں ہیں”، انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا۔
نیک نام کریم ، جو 25 سال سے ٹور آپریٹر ہیں ، نے کہا کہ کویوڈ 19 کے پھیلنے کے خوف نے انہیں رواں سال اپنی ٹریول ایجنسی ایڈونچر ٹورز پاکستان شروع کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا ، “گلگت بلتستان آنے والے سیاح ممکنہ طور پر اپنے متعلقہ شہروں میں وائرس کے ساتھ واپس جائیںگے کیونکہ مقامی افراد کسی بھی ایس او پیز کی پیروی نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی علامات ہونے پر ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔”
گلگت کے ضلعی ہیلتھ آفیسر ، عبدالمبین نے کہا کہ مقامی لوگ اس یقین کے تحت فاصلاتی پروٹوکول پر عمل نہیں کررہے ہیں کہ “اللہ ان کی حفاظت کرے گا”۔
مبین نے ایک ایسی پیشرفت شیئر کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس او پیز کوکتنے ناقص طریقہ سے نافذ کیا جارہا ہے۔ “دو ہفتے پہلے ، گلگت کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پذیر 23 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تھا اور ان میں سے دو مثبت تھے۔ ایک اور شہر چلاس میں مزید چھ افراد کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا۔ لیکن جب تک ان کیرپورٹس آئیں ، ان میں سے کوئی بھی اس شہر میں نہیں تھا جہاں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ گلگت کے ہوٹل میں قیام کرنے والے دو افراد کو مطلع کیا گیا تھا لیکن باقی چھ افراد کا پتہ نہیں چل سکا کیونکہ یا تو انھوں نے ہمیں غلط فون نمبر دیئے تھے یا ایسے علاقوں میں تھے جہاں فون سگنل کمزور تھے۔”
کیسز عروج پر ہیں
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے دیے گۓ اعداد و شمار ، جو پاکستان میں کوویڈ 19 کےکیسز اور اموات کی تعداد فراہم کرتے ہیں ، نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں 30 جولائی کو کورونا وائرس سے متعلق اموات کی تعداد 3 تھیں۔ جبکہ 25 اگست کویہ تعداد 65 پہنچ گئی۔ جانچ ابھی بھی کم ہے ، جس میں یومیہ 300 سے زیادہ ٹیسٹ نہیں کیے جاتے ہیں – اور یہ سب حکومت کے زیر انتظام لیبز کے ذریعہ ہوتا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن ، جو خطے میں سیاحت کھولنے کےخلاف تھے ، نے کہا کہ انہیں حیرت نہیں ہے کہ ایس او پیز کو گلگت بلتستان میں داخل ہونے والے سیاحوں کی آمد پر “یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔”
این سی او سی کے مطابق ، 7 اگست کو (گلگت بلتستان میں سیاحت دوبارہ کھولے جانے سے پہلے) 2،301 انفیکشن ریکارڈ ہوئے۔ جوکہ 25 اگست کو 2،720 پہنچ گے یعنی 18 دن میں 18٪ اضافہ۔
گذشتہ ہفتے ، کوروناوائرس کے گلگت بلتستان کے فوکل پرسن شاہ زمان نے کہا تھا کہ اگر ایس او پیز کو نافذ نہ کیا گیا تو خطے میں کوویڈ 19 کے کیسز “قابو سے باہر” ہوسکتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں صحت کی سہولیات محدود ہیں۔
ڈان کی ایک خبر میں ان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ “سیاحوں کو لے جانے والی کم از کم 150 کاریں” روزانہ “95٪ سیاحوں” کے ساتھ اس خطے میں داخل ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ کوڈ 19 ٹیسٹ کے نتائج نہیں لاتے ہیں۔
تھرڈ پول نے اس سے قبل گلگت بلتستان کے صحت کے ناقص انفراسٹرکچر پر رپورٹ کیا تھا۔ پاکستان جرنل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ، گلگت بلتستان میں ڈاکٹر سے آبادی کا تناسب تشویشناک طور پر غیر متناسب یعنی 1: 4100 ہے جبکہ قومی شماریات 1: 1206 ہے۔ یہ شماریاتی ثبوت اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صحت کی دیکھ بھال پریشان کن حالت میں ہے۔”
رانا نے کہا کہ ایس او پیز کی سخت تعمیل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ، “انتظامیہ نے حال ہی میں سیاحوں کی پولیس تشکیل دی ہے [جس میں 37 گشت والی کاریں اور 24 موٹر بائیکس ہیں] ، جنھیں چاہیے کہ ایس او پیز کی عدم تعمیل پر جرمانے عائد کریں۔”
رانا خان نے اعتراف کیا کہ جی بی کے 10 اضلاع میں کی جانے والی اسکریننگ “کافی نہیں” تھی اور وہ تھرمل گنوں سے درجہ حرارت کی جانچ کرنے یا قومی شناختی کارڈ نمبر نوٹ کرنے تک ہی محدود رہی۔
رانا نے کہا ، “ہم سیاحوں کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کر کے اور ایس او پیز کی سختی سے پیروی کرنے کے بارے میں سیاحت کی سروسز فراہم کرنے والوں اور ہوٹلوں کی صلاحیتوں کو بڑھا کر محفوظ طریقے سے سیاحت کا دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں۔
“مزید یہ کہ، ہمیں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانے لگانے کے لئے ایک سخت ریگولیٹری میکانزم کی ضرورت ہے۔ یہی واحد حل ہے۔”