مرجان سے مزین پتھریلے ساحلوں سے گھرا جزیرہ چرنہ ، سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر پاکستان کے ساحل سے پرے واقع ہے۔ اس کی ساحلی پٹی اور چٹانیں پاکستان کی سمندری حیاتیاتی تنوع کے لئے ایک اہم رہائش اور افزائش گاہ ہیں جس میں لائیون مچھلی جیسی خوبصورت آبی حیات شامل ہے جو کہ اسکوبا غوطہ خوروں کے لئے خاص کشش رکھتی ہے-
سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ماہر پرویز صادق نے 1970 کی دہائی میں غوطہ خوری شروع کی۔ چرنہ ان چند مقامات میں سے ایک تھا جہاں یہ تب گۓ جب پاکستان میں اسکوبا ڈائیونگ صرف مٹھی بھر غوطہ خوروں تک محدود تھی۔ اب یہ بدل گیا ہے-
چھوٹے جزیرے کے مرجان اور متنوع سمندری حیات کی طرف راغب ہو کر ، سات سال قبل ٹور آپریٹرز نے گاہکوں کو غوطہ خوری ، سنورکل ، کلف ڈائیونگ اور پانی کے کھیلوں میں حصہ لینےکے مواقع فراہم کرنا شروع کیے۔
ایک مقامی ماہی گیر ، نور محمد کے مشاہدے کے مطابق 2013-14 کےدوران موسم کے عروج پر ، جزیرے میں ایک وقت میں 500 سے زیادہ شوقین افراد ہوتے تھے، جہاں مختلف دلچسپیوں اور معاشی پسمنظر رکھنے والے افراد کی ترغیب کے لئے سرگرمیاں اور قیمتیں رکھی جاتی تھیں-
بحریہ کے اقدامات
یہ سب 2018 میں رک گیا ، جب پاک بحریہ نے جزیرے کے قریب ٹورز اور سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔ ٹور کمپنیوں کو اب سرگرمیاں انجام دینے کے لئے نان آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کی ضرورت ہے۔ بحریہ کی جانب سے فراہم کردہ ، ایک این او سی کا مقصد ایسی کمپنیوں کو اس علاقے میں کام کرنے کی اجازت دینا ہے جو ہدایات پر عمل کریں ، لیکن واضح رہنما خطوط کی کمی کے ساتھ سرخ ٹیپ کا مطلب ہے صرف وہی جو روابط رکھتے ہیں ، یا جن کے پاس مسلسل پیچھا کرنے کا وقت ہے ، سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
قوائد کے اطلاق کے بعد، وہ چند کمپنیاں جو اب بھی اس علاقے میں کام کررہی ہیں ان میں سے ایک کمپنی ڈائیورز ریف کراچی کے بانی فرحان فاروق کہتے ہیں کہ اب بھی انکی سمجھ سے باہر ہے کہ یہ پابندیاں کیوں عائد کی گئیں – بحریہ کے عہدیداروں کی طرف سے پابندی کے حوالے سے ایک وجہ اس علاقے میں آلودگی تھی۔ اسکوبا ڈائیونگ گندگی اور دیگر آلودگی کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتا ہے ، ساتھ ہی حساس مرجان ماحولیاتی نظام میں خلل کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ بڑے تجارتی ٹورز کے نتیجے میں پلاسٹک اور فوڈ پیکیجنگ جیسا کوڑا کرکٹ پانی میں پھینک دیا جاتا ہے ، جبکہ ناقص کشتیوں سے شور اور ایندھن کی آلودگی سمندری حیات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ فلپائن میں غوطہ خوری کے اثرات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بڑے گروہوں میں غوطہ خوروں کے رویوں کو درست کرنا اور ان کا انتظام کرنا مشکل تھا اور یہ ، دیگر عوامل کے بیچ، غوطہ خوروں کی کثرت سے ان علاقوں میں مرجان کی بیماری زیادہ تھی-
ان سب کے باوجود یہ اسکوبا ڈائیونگ برادری ہے جو چرنہ کے آس پاس کے علاقے کو صاف کرنے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ ڈائیونگ انسٹرکٹرس جیسے یوسف علی اور روشین خان ، جو کراچی اسکوبا ڈائیونگ سنٹر کے سربراہ ہیں ، ایک دہائی سے صفائی کی کوششوں پر کاربند ہیں۔ 2010 میں ، جب وفاقی حکومت نے پہلی بار پاکستان میں بین الاقوامی ریف کلیننگ ڈے منایا ، اسکوبا غوطہ خوروں نے گھوسٹ نیٹ ، پرانے اینکرز ، پلاسٹک کا ملبہ ، تمباکو کی مصنوعات اور یہاں تک کہ چھری بھی نکالی جو مرجان میں پھنس گئی تھی۔
اس کے باوجود ، سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے صادق کا اندازہ ہے کہ مچھلیوں کی تعداد اب تین دہائیاں پہلے کے مقابلے میں 10 فیصد کے لگ بھگ ہے ، جبکہ آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔
قصورواروں کی کمی نہیں
صحافی اور فلمساز مدیحہ سید حال ہی میں اپریل 2021 کی سمندری صفائی مہم میں شامل تھیں ۔ سید کہتی ہیں کہ اگرچہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ چرنہ کے آس پاس پائے جانے والے چھوٹے جال نکال دیے جائیں، اصل خطرہ پانی سے قریب واقع بجلی گھروں سے خارج ہونے والی آلودگی سے ہے۔
“جب ہم مانجھر سے چرنہ کے لئے روانہ ہوۓ، تو کبھی کبھی میں یہ محسوس کرتی کہ جب ہم ساحل سے سمندر میں قدم رکھتے تھے تو پانی کتنا گرم ہوتا تھا ، کیونکہ آلودگیاں پانی میں پھینکی جاتی تھیں “،سید کہتی ہیں- “اس سال بڑی جیلی فش میں بھی ایک پریشان کن اضافہ ہوا ہے – یہ موسمیاتی تبدیلی اور شکاریوں دونوں کی عدم موجودگی کیطرف اشارہ ہے جو حیاتیاتی تنوع میں کمی سے منسلک ہے۔”
جزیرے کے قریب پاور پلانٹس میں سی پی ایچ جی کوئلہ بجلی گھر اور حبکو کوئلہ بجلی گھر شامل ہیں۔ سی پی ایچ جی پلانٹ – حبکو اور ایک چینی کمپنی کے مشترکہ منصوبے کو 2016 میں منظور کیا گیا تھا ، اور اسے چرنا سے محض 500 کلومیٹر دور تعمیر کیا تھا کیونکہ یہ جزیرہ ہوا اور لہروں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حبکو کے چیف ایگزیکٹو خالد منصور نے 2017 میں ڈان کو بتایا ، “کمپنی ماحول کو آلودگیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے 60 ملین ڈالر مالیت کا سامان نصب کر رہی ہے۔ لیکن آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں نے جلد اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں اضافے کی شکایت کی ہے ، جبکہ غوطہ خوروں نے دعوی کیا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں پانی کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
کورل بلیچنگ – جو اکثر پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب چرنا کے قریب دیکھا جارہا ہے۔
دی تھرڈ پول نے اس مضمون کی اشاعت سے قبل تبصرے کے لئے حبکو سے رابطہ کیا ، جس کا کوئی جواب موصول ہونے پر اپ ڈیٹ کیا جا ۓ گا ۔
کراچی میں سینٹر آف ایکسی لینس ان میرین بائیولوجی کے پروفیسر نزہت اسفر نے بتایا کہ اس علاقے میں ہونے والے نقصان متعدد عوامل کا نتیجہ ہیں۔ ان میں ٹھوس فضلہ کوٹھکانے لگانے کا غیر مناسب طریقہ، غیر صاف شدہ گندے پانی کی نکاسی، ماہی گیری کے نقصان دہ جالوں کا استعمال ، ضرورت سے زیادہ ماہی گیری اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے سمندری درجہ حرارت میں اضافہ شامل ہے۔
ڈبلیوڈبلیو ایف میں سمندری ماہی گیری کے تکنیکی مشیر معظم خان کا خیال ہے کہ علاقے میں صنعتی سرگرمیاں جیسے پاور پلانٹس اور آئل ریفائنریز سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے بعد مرجان کو پہنچنے والے نقصان کی وجوہات ہیں۔
صفائی کی ڈرائیوز اور ماحولیاتی نظام کے منصوبوں سے واقعی مدد مل سکتی ہے اگر وہ ‘واقعی’ مدد کریںسمندری اور ماہی گیری کے ماہر حیاتیات ، محمد حسیب الرحمن
سمندری اور ماہی گیری کے ماہر حیاتیات ، محمد حسیب الرحمن نے کہا ہے کہ جب متعدد خطرات ہیں تو صرف ایک ہی معاملے کو نشانہ بنانا مطلوبہ تبدیلی نہیں لائے گا۔ انہوں نے کہا ، “لوگوں اور گاڑیوں کے مسلسل ٹریفک اور [بجلی] کے پلانٹ جیسی صنعتوں کے اثرات کی وجہ سے بہت سے قیمتی متحرک نسلوں نے جزیرے سے نقل مکانی کرلی ہے ، جبکہ مرجان جیسی غیر متحرک نسل کو خاتمے اور بلیچ کا شدید خطرہ ہے۔ “
لیکن حسیب الرحمٰن کو ڈائیونگ ٹور آپریٹرز کے کاروبار کو ’ایکو ٹورزم‘ کا نام دینے کے حوالے سے ، کیونکہ کشتیوں کی آلودگی سے مرجان خراب ہوسکتے ہیں۔ “صفائی کی ڈرائیوز اور ماحولیاتی نظام کے منصوبوں سے واقعی مدد مل سکتی ہے اگر وہ ‘واقعی’ مدد کریں۔ یہ جزیرہ پتھریلا ہے اور کسی ساحل سمندر کی طرح نہیں ہے جو زمین کے بڑے ٹکڑے سے منسلک ہے جہاں صرف فضلہ جمع کرنے اور صفائی ستھرائی کی مہمات میں کئی افراد مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
کارکنوں کو حکام کی حمایت کی کمی ہے
ابھی تک ، تحفظ کی کوششیں محدود کارکنوں تک محدود رہی ہیں جن کو حکومت کا بہت کم تعاون ہے۔ ابھی بھی کچھ الجھنیں باقی ہیں کہ آیا جزیرہ چرنہ بلوچستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (بی ای پی اے) کے زیر اثر آتا ہے یا سندھ میں اس کے صوبائی ہم منصب ، سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) میں شامل ہے۔ ایس ای پی اے کے ساتھ کام کرنے والے ایک ماہر صادق کا کہنا ہے کہ حکومت میں اس بارے میں بہت کم فہم ہے کہ آگے کیا کرنا ہے۔
اس کے بجائے ، بحریہ علاقے کے تحفظ پر فیصلے کرتی ہے۔ “فی الحال پابندیوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ پورے ساحل تک رسائی کو محدود کرنا بحریہ کا کام نہیں،” این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) کے بغیر چرنہ جزیرے کےٹورز پر بحریہ کی موجودہ پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے صادق نے کہا ۔
“اس کے بجائے ، توجہ مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی اور ماہی گیری کے پائیدار طریقوں کی تشکیل کے لئے حکمت عملی کی تجاویز تیار کرنے، غیر قانونی سائز کے ماہی گیری کے جال پر پابندی عائد کرنے، اور ایک محفوظ علاقے کے آس پاس آگاہی پروگراموں کو فنڈ کرنے پہ ہونی چاہیے۔ “
دوسرے غوطہ خوروں نے شکایت کی ہے کہ عملی اقدامات کے لئے حکومتی اداروں تک پہنچنے کی کوششوں کے باوجود، ذمہ داران چرنہ جزیرہ کو درپیش مسائل سے متعلق اکثر بے خبر نظر آتے ہیں۔
ایک نیا محفوظ سمندری علاقہ؟
آگے بڑھنے کا ایک راستہ میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) بنانا ہوسکتا ہے۔ آج تک ، پاکستان نے صرف ایک ایم پی اے ، آسٹولا جزیرہ نامزد کیا ہے ، حالانکہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے چرنہ جزیرے کو متعدد علاقوں میں سے ایک کے طور پر تجویز کیا ہے جسے یہ تحفظ ملنا چاہئے۔ ایم پی اے کی حیثیت سے جزیرے کے ایک خاص دائرے میں ماہی گیری پر پابندی ہوگی ، مچھلیوں کے لئے ایک محفوظ افزائش گاہ کی فراہمی ، اور آلودگی اور نقصان کو کم کرنے کے لئے تجارتی سرگرمیوں پر ایک حد ہوگی۔ باضابطہ طور پر محفوظ حیثیت حیاتیاتی تنوع کے لئے جزیرے کی اہمیت کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرسکتی ہے، جس سے کمپنیوں کو تحفظات کو نظرانداز کرنا زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کچھ توجہ دکھائی دے رہی ہے-
صادق ، ماہرین تعلیم اور ماہرین ماحولیات جیسے ایکسپرٹس کی برسوں کی سفارشات کے بعد ، بالآخر چرنہ جزیرے کی حفاظت کے لئے کچھ منصوبے ترتیب دیے گۓ ہیں ، جس میں سیاحت اور غوطہ خوری کی سرگرمیوں کی نگرانی ، نو فشینگ زون بنانے اور آلودگیوں کو کنٹرول کرنا شامل ہیں۔
مقامی معاش کے لئے چیلنج
اس اقدام کا ایک نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس علاقے میں ماہیگیر کمیونٹی کے لئے زندگی اور مشکل ہوجاۓ گی۔ نور محمد ، ایک کشتی ڈرائیور اور مبارک گاؤں کے ماہی گیر ، جو ساحل پر چرنہ کے قریب ترین ایک گاؤں ہے ، نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں ان کی ماہی گیری کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مئی اور اگست کے درمیان اس علاقے میں مچھلی پکڑنے پر پابندی 2013 سے 2016 کے درمیان عائد کی گئی تھی ، جو ابتدا میں کراچی فشریز ہاربر اتھارٹی نے آبادیوں کو برقرار رکھنے کے لئے افزائش نسل کے دوران مچھلیوں کے تحفظ کے لئے نافذ کی تھی- مقامی برادریوں میں آگاہی نہ ہونے اور علاقے پر لاجسٹک کنٹرول کے بہت کم انتظامات کی بنا پر یہ پابندی غیر موثر ثابت ہوئی۔
محمد نے یہ بھی کہا کہ جب قوانین علاقے میں نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتے ہیں تو مقامی لوگوں کو تحفظ میں شامل کرنا مشکل ہوتا ہے ، کیونکہ وہ روز مرہ کی ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، “حکومت مقامی ماہی گیر کمیونٹیز کو مدد فراہم کرنے کے لئے بہت کم کام کرتی ہے اور خود انحصاری کا مطلب ہے کہ وہ تحفظ کے نام پر پابندیوں کی حمایت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ اس کی ضرورت کو سمجھ نہ لیں۔”
چرنہ کی حفاظت کے لئے نہ صرف اسکوبا غوطہ خوروں ، سیاحوں اور ماہرین بلکہ مقامی برادریوں اور بڑے کاروبار کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہوگی- پابندیاں جو اکثر`باقائدگی سے نظر انداز کردی جاتی ہیں وہ چرنہ کی خوبصورتی کو بچانے کے لئے بہت کم مددگارہوں گی۔