بہار کے موسم میں ، پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی کے رہائشیوں نے سال کی پہلی شدید گرمی کی لہر کا سامنا کیا۔ 3 اپریل کومرکری کی سطح بڑھ کر 44 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگئی۔ یہ 1947 کے بعد اپریل میں ریکارڈ کیے جانے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت تھا جوکہ ایک سفاک موسم گرما کی طرف اشارہ کرتا ہے- جیسے خشک گرمی نے شہر میں اپنے قدم جماۓ کراچی ایمپریس مارکیٹ کے قریب گرمی کے ستاۓ دکانداروں کو اپنی دکانوں کے شٹر گرانے پڑ گۓ- دین محمد ، جو ایک 65 سالہ پھل فروش ہیں ، اپنی پگڑی پانی میں بھگو رہے تھے، دوپہر کی دھوپ میں انکی داڑھی سے پسینہ ٹپک رہا تھا- انہوں نے تھرڈ پول کو اپنے سامنے کنکریٹ کے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ، “مجھے اس گرمی میں پناہ لینے کے لئے کوئی سایہ میسّر نہیں ہے۔” حد نظر تک کہیں کوئی درخت نہیں۔
اپنی تیسری لہر کے ساتھ کوویڈ 19 وباء پاکستان بھر میں پھیل رہی ہے ، ملک میں تشویشناک مریضوں کی کل تعداد 3،568 ہوگئی ہے یہ اعداد و شمار وبا شروع ہونے کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔ لیکن دین محمد ، جو کھلے آسمانوں کے نیچے دن بسر کررہے ہیں اور کراچی کی کثیف ہوا میں سانس لے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں وائرس سے زیادہ گرمی کا ڈر ہے کہ کہیں یہ ان کی جان نہ لے لے۔ انہوں نے کہا ، “خدا کرے کہ میں ان گرمیوں میں زندہ رہ سکوں ۔”
موسمیاتی تبدیلی کی انسانی قیمت
جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک میں گرمی کی لہر مئی میں شروع ہوتی ہیں اور ستمبر تک جاتی ہیں۔ لیکن اس سال زیادہ درجہ حرارت کا انتباہ مارچ کے آخر میں جاری کردیا گیا۔ اگرچہ نیپال میں کوئی انتباہ جاری نہیں کیا گیا ، لیکن بنگلہ دیش اور ہندوستان دونوں پہلے ہی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کررہے ہیں۔ یکم اپریل کو ، نئی دہلی میں پارے کی سطح 40.1C تک جا پہنچی – یہ 76 سال میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا- ہندوستان کے محکمہ موسمیات نے اپریل اور جون کے درمیان ملک کے بیشتر علاقوں میں “معمول سے زیادہ” درجہ حرارت سے متعلق خبردار کیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے سردار سرفراز نے گرمی کی لہر کی جلد آمد کی وجہ روایتی موسمی ساخت میں تغیر سے منسوب کی- یہ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ اس سال خاص طور پر ، ایک مغربی خلل نے ملک کو خشک ہوا کی لپیٹ میں لےلیا، جس سے کراچی کا تسکین بخش سمندری ہوا سےسلسلہ منقطع ہوگیا ، اور درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا۔ سرفراز نے مزید کہا ، “اب صورتحال بے حد غیر متوقع ہے۔” حالیہ برسوں میں ، جنوب مشرقی پاکستان کے صوبہ سندھ میں گرمی کی شدت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2015 میں ، کراچی کا حرارت کا ااشاریہ 66 سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا ، جس میں 40،000 ہیٹ اسٹروک اور گرمی سے متاثرہ افراد میں سے کم از کم 1،200 ہلاک ہوگئے۔
شہر کے پبلک فنڈڈ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر میں ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ سیمین جمالی نے کہا کہ انہوں نے 2015 کے ہیٹ ویو کے عروج پرایمرجنسی وارد میں “ایک کے بعد ایک متاثرہ افراد آتے دیکھے”۔ مرنے والوں میں سے بیشتر بزرگ تھے ،جو پہلے سے مختلف عارضوں کا شکار تھے اور کچی بستیوں میں رہتے تھے۔
حرارت کا اشاریہ کیا ہے
ظاہر درجہ حرارت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، حرارت کا اشاریہ ہوا کے درجہ حرارت اور تقابلی نمی کو یکجا کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ایک اندازہ ہے کہ درجہ حرارت انسانی جسم کو کتنا گرم محسوس کرتا ہے۔
آب و ہوا میں بدلاؤ کی وجہ سے غیر متوقع اور شدید موسم بہت تیزی سے شہر کے 20 ملین رہائشیوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ پچھلے سال مون سون کی طوفانی بارشوں نے شہر کو مفلوج سا کردیا تھا جب سیلاب کے باعث بڑے حصے زیرآب آگئے اور کئی دن بجلی نہ رہی، یہ 1931 کے بعد سے سب سے زیادہ بارشیں تھیں جسمیں اکتالیس افراد ہلاک ہوۓ۔
جمالی کہتی ہیں، “جیساکہ ہمارا شہر تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور ٹھوس ڈھانچے اور عمارتیں درختوں اور سبز مقامات کی جگہ لیتے جارہے ہیں ، میں ہمارے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں۔”
گرمی کی لہر مزید بڑھے گی
ایک سائنسی جریدے جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز کے تحت شائع ہونے والی ایک تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ابھی بدترین صورتحال آنی باقی ہے۔ آب و ہوا کے نقوش اور مستقبل کی آبادی کے تخمینوں کا استعمال کرتے ہوئے ، اس مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ، حتیٰ کہ اگر پیرس معاہدے کے امنگی مقصد کے مطابق عالمی درجہ حرارت 1.5C پر برقرار رکھا بھی گیا ہے تب بھی ممکنہ طور پر پورے جنوبی ایشیاء میں جان لیوا گرمی کی لہر مزید بڑھیں گی۔
اس مطالعے کے مرکزی مصنف ، فہد سعید نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے لاکھوں افراد جلد ہی گرمی کے مہلک دباؤ کا شکار ہوجائیں گے ، جب “رطوبت پیما” کا درجہ حرارت 32C سے اوپر جائیگا۔
رطوبت پیما کا درجہ حرارت کیا ہے
حرارت کے اشاریے کی طرح ، رطوبت پیما کا درجہ حرارت ناصرف نمی اور درجہ حرارت کو بھی مدنظر رکھتا ہے بلکہ ہوا کی رفتار ، بادل کا احاطہ ، سورج کا زاویہ اور جسمانی سرگرمی کو بھی شمار کرتا ہے۔
ایک رطوبت پیما کا درجہ حرارت 32C اس وقت ہوتا ہے جب بیرونی مشقت غیر محفوظ ہوجائے ، اور 35C انسانی بقا کی اوپری حد ہے ، جس سے آگے جسم خود کو ٹھنڈا نہیں کرسکتا ہے۔
اس خطے میں جہاں 1.5 بلین سے زیادہ افراد آباد ہیں ، سعید کی تحقیق خطرے کی گھنٹی ہے۔ جنوبی ایشیاء کی تقریبا 60٪ آبادی زراعت سے وابستہ ہے ، اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے فصلوں کی پیداوار اور اہداف کے ساتھ ساتھ مزدوری کی پیداوریت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اور نئی رہائشی اسکیموں کے آنےسے ، تعمیراتی مزدور طبقہ آبادی کا ایک اور کمزور طبقہ بنتا جارہا ہے۔
ساحلی شہر اور غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہیں
گنجان آباد ساحلی شہر جیسے کراچی اور ممبئی خاص طور پر خطرے کی زد میں ہیں۔ “موسم کی تبدیلی کے نتیجے میں ہمارے ماحول کی نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جس کا مطلب ہے مرطوبیت میں اضافہ ہوگا۔ اس سے ساحلی شہر خاص طور پر متاثر ہوں گے، “سعید نے کہا۔ “بڑھتی ہوئی نمی کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ تباہی کا پیش خیمہ ہے۔”
مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات سب سے زیادہ کراچی ، پشاور ، ممبئی اور کولکتہ جیسے شہروں میں مزدوروں اور صنعتی کارکنوں کو محسوس ہوگا: سعید نے کہا ، “جن لوگوں کو ایئر کنڈیشنگ تک رسائی حاصل نہیں ہے ، وہ غریبوں میں غریب ترین ہیں۔”
دوسرے الفاظ میں ، بڑھتا ہوا درجہ حرارت غربت میں اضافہ کر سکتا ہے ، صحت عامہ کو خراب کرسکتا ہے اور اس خطے میں رہائش کے معیار میں شدید کمی کا باعث بن سکتا ہے جہاں 29٪ آبادی یعنی 216 ملین افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ گرمی میں اضافہ خواتین کو غیرمتناسب انداز میں متاثر کرسکتا ہے- امریکی تھنک ٹینک دی اربن انسٹی ٹیوٹ کے 2017 کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی لانے والے تناؤ کے نتیجے میں غریب خواتین میں گھریلو زیادتی اور نیند کی کمی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں یہ بھی پتا چلا کہ دہلی اور اسلام آباد میں خواتین روزانہ اوسطا ایک گھنٹہ اضافی کنبہ کے ممبروں کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہیں اگر گھر کا کوئی فرد خراب ماحولیاتی حالات سے بیمار ہوگیا ہو۔
توانائی کی پالیسی کی مشیر نمیرہ حمید کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کی رفتار کو محدود کرنے کے لئے صاف توانائی کی منتقلی کی وکالت کرتی ہیں۔ نمیرہ حمید نے کہا ، صنفی مساوات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ، “اس میں فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین رہنماؤں کی شمولیت ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنائے کہ پالیسی کے اقدامات صنف سے متعلق مخصوص ضروریات کو مدنظر رکھ کر بناۓ جائیں ، جن میں صاف کھانا پکانے تک رسائی ، تباہی سے نمٹنے اور رسک مینجمنٹ شامل ہیں۔”
فہد سعید نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے کثیر اور شدید گرمی کے لہروں کے موافق خود کو ڈھالنا ممکن ہے۔ انہوں نے عوامی مقامات مثلا عبادت گاہوں ، لائبریریوں اور کمیونٹی مراکز میں مصنوعی کولنگ سسٹم کا استعمال اور تباہی سے نمٹنے والی ٹیموں کی تربیت تجویز کی جو گرمی کی لہر کے بحران کے دوران کام کرسکیں۔
تاہم ، مصنوعی ٹھنڈک کی ناقص منصوبہ بندی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ٹھنڈک کی طلب کے منفی سائیکل کا خطرہ ہوسکتا ہے- ایئر کنڈیشنگ میں بڑی مقدار میں بجلی استعمال ہوتی ہے ، جو قدرتی ایندھن کو جلانے سے حاصل ہوتی ہے ، جبکہ بہت سی کولنگ ٹیکنالوجیز ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) جیسی گیسوں کا استعمال کرتی ہیں ، جس کا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کئی درجہ گرم اثر پڑتا ہے- اس سے بچنے کی کلید موثر توانائی اور ایچ ایف سی کےبغیر کولنگ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ہے-
اگرچہ ہندوستان اور پاکستان سیاسی طور پرایک دوسرے سے نظر نہیں ملاتے، لیکن موسمیاتی تبدیلی یقینی طور پر دونوں کے درمیان تمیز نہیں کرے گی۔ “اب وقت آگیا ہے کہ ہم نے معلومات کے تبادلے کے لئے ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) کو متحرک کریں،” سعید نے کہا ۔ “موافقت اب ہمارے لئے ایک انتخاب نہیں ناگزیر ہوگیا ہے۔”