جیسے جیسے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، لوگوں کو ٹھنڈا رکھنے کے طریقے تلاش کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس سال، جنوبی ایشیا میں گرمی کے کئی مہلک ریکارڈ قائم ہوئے: نئی دہلی میں، جولائی میں 90 سالوں میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 43.6 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی میں اپریل میں پارہ 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو 74 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
گزشتہ ہفتے، آب و ہوا کا تجزیہ کرنے والی انجمن کلائمیٹ ایکشن ٹریکر نے تحقیق شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر سی او پی 26 کے پہلے ہفتے میں دنیا کی حکومتوں کی طرف سے کیے گئے نئے وعدے پورے ہو جاتے ہیں، تب بھی اس صدی میں عالمی درجہ حرارت 2.4C سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ یہ اس تحقیق کی اشاعت سے مطابقت رکھتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں صرف 2 سینٹی گریڈ اضافے سے ایک ارب لوگ شدید گرمی کے دباؤ سے متاثر ہوں گے۔
حتیٰ کہ گلوبل وارمنگ کے 1.5C پر بھی (پیرس معاہدے میں متعین کردہ ہدف)، مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ مہلک گرمی کا تناؤ پورے جنوبی ایشیا میں عام ہو سکتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے وعدوں کے باوجود، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا چند سالوں میں 1.5C کی حد تک پہنچ سکتی ہے-
لہٰذا ٹھنڈک کرنے والی پائیدار ٹیکنالوجیز اور طریقوں کی اشد ضرورت ہے جو کم کاربن والے ہوں اور غریب ترین لوگوں کے لیے قابل رسائی ہوں، جنہیں گرمی کی لہروں سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اور سب سے اھم یہ کہ مجوزہ حل کے لئے نچلی سطح کی حمایت ہونا لازمی ہے-
“ہم عالمی کثیر الجہتی حل پر متفق نہیں ہو سکتے اگر ہمارے پاس مقامی، مناسب نفاذ نہ ہو،” کوسٹا ریکا کے صدر، کارلوس الوارڈو کوئساڈا، نے 4 نومبر کو گلاسگو میں برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے ایشڈن کی طرف سے منعقدہ ایک ایوارڈ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی حمایت کرتی ہے۔
اس سال کے ایشڈن ایوارڈز نے، جس میں تھرڈ پول نے شرکت کی، پائیدار ٹھنڈک کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ ذیل میں نمایاں کیے گئے بہت سے پروجیکٹس اس کے فیئر کولنگ فنڈ کے ذریعے فنانس حاصل کررہے ہیں، جس کا مقصد “فرنٹ لائن فیئر کولنگ سلوشنز” کوفروغ دینا ہے۔
1. کم لاگت کے حل کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانا
غریب محلوں میں گھر عام طور پر اکثر بارش روکنے کے لئے پلاسٹک کے کور یا ٹن کی چادروں کے ساتھ، سیمنٹ سے بنائے جاتے ہیں- یہ مواد گرمی کو جذب کرتے ہیں، اور گرم اور حبس جیسے حالات پیدا کرتے ہیں۔ جیسے جیسے شہری آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور گلوبل وارمنگ کے اثرات زیادہ واضح ہوتے جاتے ہیں، صفائی اور صحت کے بڑھتے ہوۓ اثرات کے ساتھ مسائل مزید بدترہوتے جائیں گے۔ خواتین اس سے زیادہ متاثر ہونگی کیوں کہ انکا کام زیادہ تر گھروں کے اندر ہوتا ہے-
مہیلا ہاؤسنگ ٹرسٹ (ایم ایچ ٹی ) احمد آباد میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ یہ گرمی کے تناؤ سے نمٹنے کے لئے کمیونٹیز کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے ہندوستان بھر کے 10 شہروں میں کام کررہی ہے۔ یہ خواتین کو اپنے گھروں کو ایسے طریقوں سے ٹھنڈا کرنے کے بارے میں مشورے دیتی ہے جو سستے ہوں اور آسانی سے لاگو کے جاسکتے ہوں۔ آج تک، 1,600 سے زیادہ خواتین کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے کچھ اثرات سے نمٹنے کے بارے میں تعلیم دی گئی ہے۔
یہ تکنیکیں غیر فعال کولنگ طریقوں پر مرکوز ہے جو لوگوں کے گھروں کے اندر گرمی کو پیدا ہونے سے روکتی ہیں۔ چھتوں اور سورج کا سامنا کرنے والی دیواروں کو شمسی توانائی سے عکاس رنگ سے پینٹ کرنا سب سے تیز اور آسان ترین طریقہ ہے جس سے اندرونی درجہ حرارت 4 – 5 ڈگری کم ہوجاۓ گا-
گلوبل کول سٹیز الائنس کے مطابق، جب سورج کی روشنی ہلکے رنگ کی چھت سے ٹکراتی ہے، تو اس کی 80% توانائی منعکس ہوتی ہے، جب کہ گہرے رنگ کی چھت کے لیے یہ 5% ہے۔
ہندوستان میں احمد آباد ہیٹ ایکشن پلان (ایچ اے پی ) کے تحت، میونسپل کارپوریشن، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اور نیچرل ریسورس ڈیفنس کونسل کے درمیان شراکت داری میں، 7,000 سے زیادہ کم آمدنی والے گھرانوں کی چھتوں کو سفید رنگ کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح کے اقدامات ہر سال ایک اندازے کے مطابق 1,100 جانیں بچاتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر، ملین کول روفز چیلنج ایک 2 ملین امریکی ڈالر کا انسان دوست قدم ہے جس میں گرمی کے دباؤ کا شکار ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ٹھنڈک کی شکل کے طور پر شمسی توانائی سے عکاس چھتوں کے استعمال کو تیزی سے بڑھانا ہے۔ دس ٹیموں کو 100,000 امریکی ڈالر کی گرانٹ دی گئی ہے۔ 2019 میں، فائنلسٹ میں سے ایک بنگلہ دیش کی ٹیم تھی، ایک ایسا ملک جہاں نمی کی سطح زیادہ ہے اور جہاں کا محیط درجہ حرارت پہلے ہی 40 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیم نے ڈھاکہ میں دو فیکٹریوں اور 105 دیگر عمارتوں کی چھتوں کو پینٹ کیا، جس میں ایک نرسری اور ایک اسکول بھی شامل ہے، جس سے اندرونی ہوا کا اوسط درجہ حرارت 7 سینٹی گریڈ سے زیادہ گر گیا۔
ایم ایچ ٹی کا دوسرا آسان قدم چھتوں پر پودے اور بیلیں اگانے کا مشورہ ہے، جس کے بارے میں خیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے گھر کے اندر کے درجہ حرارت کو 2.5 ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔ پودوں سے ثابت ہوا ہے کہ چھاؤں اور بخارات کی منتقلی کے ذریعے ٹھنڈک ہوسکتی ہے۔ ایم ایچ ٹی نے بھوپال اور رانچی میں تقریباً 200 گھروں کو ایسا کرنے میں مدد کی ہے۔
ایم ایچ ٹی چھتوں کی جدید کاری میں مشورہ دیتا ہے اور مدد بھی کرتا ہے۔ متبادل ڈھانچے میں وینٹ ہوتے ہیں اور یہ ری سائیکل مواد سے بنائے جاتے ہیں جو گرمی کو روکے بغیر زیادہ روشنی اندر لاتے ہیں۔ ایم ایچ ٹی کے مطابق، یہ درجہ حرارت 6-7 ڈگری تک کم کر سکتے ہیں۔ آخر میں، چیریٹی خواتین کو گرمی کے دباؤ کو کم کرنے کے اصولوں پر تربیت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایم ایچ ٹی کے کمیونیکیشن آفیسر، انری نہلانی نے کہا، تعمیر کے دوران عمارت کی سمت بندی کو مد نظر رکھنے سے زیادہ گرمی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے- ان اقدامات سے خاندان کے مالی معاملات کے ساتھ ساتھ ان کے آرام میں بھی مدد مل سکتی ہے، کیونکہ انہیں اپنے گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کم بجلی کی ضرورت ہوگی۔
2014 سے، مہیلا ہاؤسنگ ٹرسٹ نے 2,000 سے زیادہ خاندانوں کو گرمی سے بچنے والے اقدامات اپنانے میں مدد کی ہے۔ اپنے کام کے اعتراف میں،ایم ایچ ٹی نے غیر رسمی بستیوں میں ٹھنڈک کے لیے 2021 کا ایشڈن ایوارڈ جیتا، جو سی او پی 26 میں پیش کیا گیا تھا۔
2. پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے گرمی کی موصلیت میں تبدیل کرنا
سی بیلنس، ایک ہندوستانی کنسلٹنسی جس کوایشڈن سے مالی امداد بھی حاصل ہوئی ہے، متحمل ڈیزائن حل کو آگے بڑھانے کے لیے کمیونٹیز کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ان میں سے دو فضلے کو ایسے مواد میں بدل دیتے ہیں جو گرمی کو جذب کرنے سے روکتا ہے۔ پہلی ری سائیکلوں میں پلاسٹک کی پیکیجنگ کو چادروں اور موصلیت کے بورڈز میں تبدیل کر دیا۔ یہ چھاؤں فراہم کرتے ہیں، شمسی تابکاری کو منعکس کرتے ہیں اور گھروں کو گرمی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
سی بیلنس استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں بھی لیتا ہے اور انہیں ہیٹ اسٹوریج سسٹم میں تبدیل کرتا ہے۔ بوتلوں کو پانی سے بھر کر، انہیں سیل کر کے چھت پر باندھ دیا جاتا ہے۔ وہاں، وہ سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور چھت کے تھرمل ماس (اس کی گرمی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت) میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ اس رفتار کو کم کرتا ہے جس سے گرمی نیچے کی عمارت میں داخل ہوتی ہے۔ رات بھر، بوتلوں میں پانی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اور اگلی صبح سے یہ عمل دوبارہ شروع ہوتا ہے۔
ایشڈن کے فیئر کولنگ فنڈ کے تحت سی بیلنس کی طرف سے تیار کیے جانے والے دیگر حلوں میں چمکدار ایلومینیم فوائل شیٹس سے چھتوں کو ڈھانپنا، وینٹیلیشن کے لیے کھڑکیاں اور سبز چھتیں شامل ہیں۔ سی بیلنس سلوشنز ہب کی پروجیکٹ اسسٹنٹ وینیتا روڈریگس نے کہا کہ یہ ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے اور اسے اب تک پونے شہر کے پانچ گھروں میں نصب کیا جا چکا ہے۔ طریقوں کا مشاہدہ کرنے اور انہیں بہتر کرنے کے بعد، انہوں نے کہا، سی بیلنس کا ہدف جنوری 2022 تک پونے اور بنگلور کے 30 عمارتوں میں انہیں نصب کرنا ہے۔
روڈریگس نے کہا، “مستقبل میں، ہمارا مقصد اس کاوش کی مالی اعانت اور اسے برقرار رکھنے کے لئے خواتین کے کوآپریٹیو ماڈلز، حکومتوں، سٹی یوٹیلیٹیز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کرنا ہے۔” انہوں نے براہ راست حل فراہم کرنے کے بجائے گرمی کے تناؤ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کمیونٹیز کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
3. جیوتھرمل ایئر کنڈیشنگ
زمین کی سطح پر درجہ حرارت میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ لیکن زمین کی سطح کے نیچے درجہ حرارت میں بہت کم تبدیلی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک کمپنی جیو ایئرکون کے بانیوں نے گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پایداری کو بروئے کار لایا ہے۔ جیو ایئرکون سسٹم میں، سیال سے بھرے پائپوں کا ایک ‘لوپ’ نصب کیا جاتا ہے۔ جیو تھرمل ہیٹ پمپس نظام کے گرد گرمی کو منتقل کرتے ہیں- گرمیوں کے دوران یہ پائپ عمارت سے گرم پانی نکال کر اسے زیر زمین منتقل کرتے ہیں۔ (موسم سرما میں، اس کے برعکس اصول گھر کو گرم کرنے پر لاگو ہوتا ہے۔)
کمپنی کے مطابق پاکستان میں سطح سے 8 سے 12 فٹ نیچے زمین کا درجہ حرارت 21 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے۔ لہذا جیو ایئرکون سسٹم عمارتوں کو اس حد تک ٹھنڈا کر سکتے ہیں – جوانسانی جسم کے لیے ایک آرام دہ درجہ حرارت۔ جیو ایئرکون کا کہنا ہے کہ جیوتھرمل سسٹم ٹھنڈک پیدا کرنے کے لئے زیادہ موثر روایتی ایئر کنڈیشننگ سسٹم سے دوگنا موثر ہیں۔ جیو ایئرکون کے چیف ایگزیکٹیو ایم حسام الدین نے تھرڈ پول کو بتایا کہ کولنگ کی صلاحیت عمارت کی موصلیت سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے، اس لیے متحمل کولنگ کے بہترین طریقوں کے استعمال کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے۔
کمپنی کے مطابق، ایک سسٹم کو انسٹال کرنے کے لیے 260-460 امریکی ڈالر لاگت آتی ہے، اور روایتی ایئر کنڈیشننگ یونٹ کے مقابلے میں اسے چلانے کے لیے کافی کم لاگت آتی ہے۔ حسام الدین نے کہا کہ اگرچہ بیرونی جگہوں والے مکانات کے لیے زیادہ موزوں ہے، لیکن یہ ٹیکنالوجی گنجان آباد علاقوں میں نصب کی جا سکتی ہے، جہاں زیر زمین پائپوں کے لیے سوراخ کرنے کے لیے ایک میٹر سے کم چوڑائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان میں اب تک 12 عمارتوں میں جیو ایئرکون سسٹم نصب کیا جا چکا ہے۔ جیو ایئرکون غیر رسمی بستیوں میں ٹھنڈک کے لیے 2021 کے ایشڈن ایوارڈ کے لیے رنر اپ تھا۔
4. کم اثر والے کولنگ سسٹم
2015 میں ہندوستان میں 80 لاکھ ایئر کنڈیشنر لگائے گئے تھے۔ یہ تعداد اگلے 20 سالوں میں 200-300 ملین تک بڑھنے کی توقع ہے۔ لیکن روایتی ائر کنڈیشنگ مہنگی ہے، بجلی کا تصرف زیادہ ہے اور اکثر ایچ ایف سیز جیسی گرین ہاؤس گیسوں کا استعمال کرتا ہے، جو موسمیاتی بحران کو بڑھاتا ہے۔ غیر رسمی بستیوں میں ٹھنڈک کے اقدامات کے ساتھ ساتھ، سی بیلنس روایتی ایئر کنڈیشننگ پر انحصار کم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ متحمل کولنگ ڈیزائن اور وینٹیلیشن کو فروغ دیتی ہے، اپنے فیئر کنڈیشننگ پروگرام کے ذریعے آرکیٹیکٹس اور شہری کمیونٹیز کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ فیئر کنڈیشننگ پر کام کرنے والے انجینئر حسن البنا خان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ زیادہ تر صورتوں میں ایک عمارت صرف متحمل ڈیزائن تکنیکوں کے ساتھ پائیدار کولنگ سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے آرام دہ درجہ حرارت برقرار رکھ سکتی ہے۔ مصنوعی کولنگ کی ضرورت کو ہر ممکن حد تک کم کرنے کے بعد، کمپنی ایسی ٹیکنالوجیز کو بھی فروغ دیتی ہے جو ٹھنڈک کے لئے توانائی اور گرین ہاؤس گیس کی شدت کو کم کرتی ہیں۔
اس میں شامل ہیں:
- بخاراتی ٹھنڈک، جو ہوا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے آبی بخارات استعمال کرتی ہے۔ روایتی ایئر کنڈیشنگ کے برعکس، یہ ریفریجریشن کا استعمال نہیں کرتا، اور اس لیے بہت کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پونے کی ایک عمارت میں، اس سسٹم سے روایتی اے سی کی ضرورت 40% تک کم ہوگئی ہے۔
- اشعاعی یا عمارتی ٹھنڈک، جہاں ٹھنڈا پانی عمارت کے ڈھانچے میں گردش کرتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو ہندوستان کی 73 بڑی عمارتوں میں استعمال کیا گیا ہے، بشمول پونے میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹروپیکل میٹریولوجی۔
- پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال۔
- ایئر کنڈیشننگ یونٹس جو توانائی کی بچت کرتے ہیں اور کم ایچ ایف سیز خارج کرتے ہیں۔
5. پائیدار ٹھنڈک فراہم کرنے والا مقامی فن تعمیر
ماہر تعمیرات اور معمار روایتی مواد، تکنیک اور ڈیزائن پر بھی غور سکتے ہیں، جو صدیوں سے مکینوں کو ٹھنڈا رکھتے آۓ ہیں۔ رودرا پور، شمالی بنگلہ دیش میں ایک پروجیکٹ میں، طالب علموں اور ماہر تعمیرات نے مقامی معماروں اور کاریگروں کے ساتھ مل کر کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے گھر بنانے پر کام کیا۔ مٹی اور بانس کو انسانی ساختہ مواد کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے کراس وینٹیلیشن کے لیے سوراخ لگائے، ناریل کے ریشے اور شیشے کی کھڑکیوں سے بنی موصلیت بنائیں۔
روایتی اسٹیلٹ ہاؤسز، جیسے کہ آسام میں پائے جاتے ہیں، بھی متحمل کولنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ڈھانچے کراس وینٹیلیشن اور چھاؤں کو مہیا کرتے ہیں۔ دیواریں، جو بغیر پلستر کے رہ جاتی ہیں، قدرتی ہواداری کو فروغ دیتی ہیں۔ حال ہی میں، پراجیکٹس نے روایتی ماڈلز کو مواد کے ساتھ ملانا شروع کر دیا ہے تاکہ ان کی شدید موسم میں برداشت کو بڑھایا جا سکے
پائیدار ٹھنڈک کے لیے پالیسی سازوں اور شہری منصوبہ بندی کی اہمیت
جیسا کہ عالمی اخراج درجہ حرارت کو نئی بلندیوں تک لے جارہا ہے، اس لیے ان طریقوں اور ٹیکنالوجیز کو زیادہ وسیع پیمانے پر لانے کی فوری ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ گلوبل وارمنگ کو محدود کرنے کے لیے فوری اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایم ایچ ٹی سے انری نہلانی اور جیو ایئرکون کے ایم حسام الدین دونوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ان کی تنظیموں کی جانب سے پیش کیے جانے والے حل کو وسیع پیمانے پر اپنانے میں فنانس بنیادی رکاوٹ ہے۔ فیئر کنڈیشننگ پروگرام سے تعلق رکھنے والے حسن البنا خان نے کہا کہ روایتی ایئر کنڈیشننگ کے اثرات کے کے بارے میں ابھی بھی آگاہی کی کمی ہے ساتھ ساتھ “پائیدار عمارت کے ڈیزائن کے شعبے میں حوصلہ افزائی اور ہنر مند آرکیٹیکٹس اور انجینئرز کی کمی ہے” ۔ اس سے آگے، شہری منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ویتنام میں، ہنوئی سٹی ماسٹر پلان 2030 پائیدار شہری ٹھنڈک کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو 2050 تک نیٹ – زیرو کرنے کا ملکی عزم رکھتا ہے- اس کا مقصد سبز اور نیلی جگہ کے وینٹیلیشن کوریڈورز کا استعمال کرتے ہوئے پورے شہر میں گرمی کو بڑھنے سے روکنا ہے۔
جیسے جیسے جنوبی ایشیا گرم اور اربنائز ہو رہا ہے، شہروں کو اپنے ترقیاتی منصوبوں کے مرکز میں گرمی کی موافقت اور تخفیف کے لئے ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔