اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کوموسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار
کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا ، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
اور متعدد دیگرافراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوابازی کو لاحق خطرات کے حوالے
سے پے درپے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھاجن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ
موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔
یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح
کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے
بعداس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔
ہیمل دوشی، جواس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے
کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ
بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“
اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر
بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے
جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہوگئے ۔جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے
بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اورگرنے سے
بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑرکھا تھا۔
نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو
رہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”
فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں
کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجہ ءحرارت میں اضافے اور جنگلات کی
کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا
ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں
غیر متوقع طور پر فضامیں طیاروں کوہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،خاص طور پر کراچی اور
لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔
عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے
محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی
تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں
فضائی انتشار یا(clear-air
turbulence (CAT) کا سامناکرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ بھی واضح
کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور
مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی
عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔
اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا
میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے ، جس سے عالمی سطح پرہوائی ٹریفک کے لیے بے
ترتیبی(clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس
جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں
55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکارسردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (
فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی
( 85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیوسونڈ
نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔
عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے
انتشار کا باعث بنتی ہے۔”
IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ
اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا
ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔لہذا ریڈار پر اس ہوا
کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”
موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر
اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی
ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کواجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی
درجہءحرارت(بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند
سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش
کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے
کی طرف حرکت اور درجہ ءحرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا(
Clear-air turbulence) تشکیل پاتاہے۔”
IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ
ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود
ہوا کے درجہءحرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ
کن طور پر رونماہو تے ہیں۔ اعدادو شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح
پرہوا کے درجہءحرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار
اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9اور خزاں اور گرما میں % 14اضافہ ہو جائے گا۔
اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام(Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے
آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان
موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔
ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو
ہوشیار رہنا ہوگا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی
واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جبکہ ہوا بازی کے
شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے
مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی
کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد
طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراونڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی
ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو
سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے
کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”
جنوبی ایشیا میں ہوابازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں
نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی
رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا
اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں
مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔
رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی
نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک
اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمدورفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی
ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک
کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے
کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگراس طلب کو
پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ
ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔
ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضامیں
کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ
ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر
پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں
کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی
جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہو نے لگتے ہیں اورایسے
بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک
رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے
پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ
کرلیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد
بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔
ہوابازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے
شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں ، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا
میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جودراصل کاربن کے
اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔
سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصدطیاروں کے پرواز کے
دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو
سرسبز بنانا ہے۔
سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University)سے ایرو اسپیس انجینئرنگ
میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے
ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات
کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی
شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے
علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکاجا سکتا ہے۔
پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوابازی
کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز
2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے
والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا
چاہیے۔“
ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ
پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوابازی کی
صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔
سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی
ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپرفضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ
ہوابازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور
گلوبل وارمنگ میں اپناحصہ ڈال رہا ہے۔“
یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پارٹریننگ
ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے
سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
رپورٹنگ کا یہ منصوبہ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام سرحد پار ورکشاپ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں پر کہانیاں دریافت کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔