کاغذات پر پاکستان نے اپنے سمندری تحفظ کا آغاز کردیا ہے۔
جولائی میں پاکستان نے کراچی سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب میں واقع دلدلی ساحلی علاقے “میانی ہور” کے قریب اپنا تیسرا سمندری محفوظ علاقہ قائم کیا۔ اس سے پہلے 2017 میں “استولا جزیرہ” اور 2024 میں “چرنا جزیرہ” کو محفوظ قرار دیا گیاتھا۔ ان علاقوں کے تحفظ کا مقصد مونگے کی چٹانیں، مچھلیوں اور دیگر سمندری جان داروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کی تخلیق ہے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے سمندری محفوظ علاقوں (ایم پی ایز) کی اصل صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں تمام بے ضابطگیاں عام ہیں مثلابھاری بھرکم ٹرالرزسمندر کی سطح کو روندتے ہیں، غیر معیاری اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے مچھلیوں کی نسل کشی اور ماہی گیروں کے ہاتھوں زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے برقی کرنٹ کا استعمال عام ہے۔
پاکستان نے 2030 تک اپنے سمندر کے 30 فیصد حصے کو محفوظ بنانے کا عزم کیا ہے، لیکن فی الحال یہ تین سمندری محفوظ علاقے مجموعی طور پر 1 فیصد سے بھی کم حصے پر مشتمل ہیں۔
پاکستان نے 2030 تک اپنے سمندر کے 30 فیصد حصے کو محفوظ بنانے کا عزم کیا ہے، لیکن فی الحال یہ تین سمندری محفوظ علاقے مجموعی طور پر 1 فیصد سے بھی کم حصے پر مشتمل ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے بائیوڈاﺅرسٹی پروگرام کے سینیئر ڈائریکٹررب نواز وضاحت کرتے ہیں”پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا زیادہ تر حصہ خشکی پر محیط ہے اوراس کی زیادہ تر تحفظ کی کوششیں بھی خشکی تک محدود رہی ہیں، لوگ اب جا
کر کہیں ان مسائل کو سمجھنا شروع ہوئے ہیں اور اس حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں۔“
رب نواز کو تشویش ہے کہ پاکستان کا سمندر اس توجہ سے محروم ہے،”ہم پہلے ہی غیر منصوبہ بند ترقیاتی سرگرمیوں اور ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے باعث اپنے سمندری حیات کا بڑا حصہ کھو رہے ہیں۔
سمندری تحفظ کے حوالے سے پاکستان کے وعدے!
سمندر کی صحت انسانیت کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ سمندر زمین پر پیدا ہونے والی آکسیجن کا نصف حصہ فراہم کرتا ہے اور انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تقریباً ایک چوتھائی حصے کو جذب کر لیتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سمندر زمین کے ماحولیاتی نظام میں گرین ہاوس گیسوں کے باعث پھنسنے والی اضافی حرارت کا 91 فیصد بھی ذخیرہ کرتا ہے۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کے کنونشن کی توثیق کرنے والے دیگر 195 ممالک کے ساتھ مل کر 2022 میں کن
منگ،مونٹریال عالمی حیاتیاتی تنوع فریم ورک (GBF) کو اپنایا تھا۔اس فریم ورک کے تحت متعلقہ ممالک کے لیے یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ وہ 2030 تک اپنی خشکی اور آب گاہوں کا کم از کم 30 فیصد اور سمندری و ساحلی علاقوں کا بھی کم از کم 30 فیصد حصہ تحفظ کے دائرے میں لائیں۔
اس ہدف کی آخری تاریخ میں پانچ سال سے بھی کم وقت باقی ہے، لیکن اس30×30 مقصد کی جانب پاکستان کی پیش رفت غیر متوازن نظر آرہی ہے۔
رواں سال کے آغاز میں ایک سمندری محفوظ علاقہ (MPA) قرار دیا گیا۔
(تصویر:حوّا فضل)
ہے کہ سمندری محفوظ علاقے کا درجہ حاصل ہونے سے ماحولیاتی سیاحت کو فروغ ملے گا اور مقامی آبادی کو آمدنی کے بہتر
ذرائع میسر آئیں گے۔
(تصویر: حوّا فضل)
ماہرین نے ڈائیلاگ ارتھ (Dialogue Earth) کو بتایا کہ پاکستان کے تین سمندری محفوظ علاقے (ایم پی ایز) اس کے دائرہ اختیار میں موجود سمندری رقبے 240,000 مربع کلومیٹر میں سے صرف 1,262 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں یعنی محض 0.5 فیصد۔ لیکن یہ صورت حال صرف پاکستان تک محدود نہیں؛جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک، جو حیاتیاتی تنوع کے کنونشن کے رکن ہیں، بھی اسی طرح مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں
اعداد و شمار کے مطابق: بنگلہ دیش نے اپنے سمندری علاقے کے 8.0 فیصد کو محفوظ قرار دیا ہے- بھارت نے صرف 0.3 فیصد مالدیپ نے 0.1 فیصد سے بھی کم جبکہ سری لنکا نے 0.3 فیصد سمندری علاقے کو تحفظ دیا ہے۔
یہ معلومات اسکائی ٹرتھ (Sky Truth) ادارے کی فراہم کردہ ہیں جو دنیا بھر میں30×30 اہداف کی پیش رفت کا جائزہ لیتا ہے۔
پاکستان کے سمندری محفوظ علاقے (ایم پی ایز) کیسے قائم کیے جاتے ہیں؟
پاکستان میں سمندری محفوظ علاقے (ایم پی ایز) قائم کرنا ایک چیلنج ثابت ہوا ہے، اگرچہ اس کا طریقہ ء کار نسبتاً آسان ہے.
سب سے پہلے ممکنہ علاقے کے حوالے سے بنیادی جائزے (Baseline studies) مکمل کیے جاتے ہیں۔ جب کوئی علاقہ منتخب
ہو جائے تو وہاں کے رہائشیوں، مقامی ماہی گیروں، حکومتی اداروں اور متعلقہ حکام سے مشاورت کی جاتی ہے تاکہ ان کی رائے حاصل کی جا سکے۔
سب سے پہلے ممکنہ علاقے کے حوالے سے بنیادی جائزے (Baseline studies) مکمل کیے جاتے ہیں۔ جب کوئی علاقہ منتخب
ہو جائے تو وہاں کے رہائشیوں، مقامی ماہی گیروں، حکومتی اداروں اور متعلقہ حکام سے مشاورت کی جاتی ہے تاکہ ان کی
رائے حاصل کی جا سکے۔
اس کے بعد تجاویز کو مزید سفارشات اور فیصلے کے لیے ایک قومی رابطہ جاتی ادارے (National coordinating body)
کو بھیجا جاتا ہے۔ اس ادارے میں وزارتِ دفاع، ماہی گیری کے محکے، بندرگاہ کے حکام، سول سوسائٹی اور پاکستان کی دو
ساحلی صوبوں سندھ اور بلوچستان کے جنگلی حیات کے محکموں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔
اس کمیٹی کی صدارت وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کرتی ہے، جبکہ آئی یو سی این اس کے کنوینر کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے۔
تاہم، عملی طور پر یہ عمل کئی سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ میانی ہور کو پہلی بار 2013 میں محفوظ علاقے کے طور پر تجویز کیا گیا تھا ، لیکن یہ علاقہ باضابطہ طور پر اسی سال قائم کیا گیا۔
بات سے بے خبر ہیں کہ اس فیصلے کے ان کے لیے حقیقی معنی کیا ہیں۔
)تصویر: حوّا فضل)
جب نیشنل کوآرڈینیٹنگ باڈی فیصلہ کر لیتی ہے تو متعلقہ صوبائی حکومت متعلقہ سمندری محفوظ علاقہ (ایم پی اے) کا ایک باضابطہ اعلامیہ جاری کرتی ہے۔ اس اعلامیے میں علاقے کی حدود اور تحفظ کے اقدامات مثلاً ماہی گیری پر پابندیاں وغیرہ واضح طور پر درج کی جاتی ہیں۔
چرنا اور میانی کے سمندری محفوظ علاقوں (ایم پی ایز) کے اعلامیوں میں یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے متاثرہ مسکن، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کے عمل کو محفوظ اور بحال کیا جائے۔
ان اعلامیوں کے تحت خطرے سے دوچار انواع ، جن میں مونگے کی چٹانیں، سمندری اور وہیل شارک شامل ہیں ، کے شکار یا انہیں پکڑنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مزید برآں، دھماکہ خیز مواد، کیمیکل، اسکوبا گنز اور سپیئر گنز کے استعمال پر مکمل پابندی ہے۔ اسی طرح، اسکوبا ڈائیونگ اور پاور بوٹنگ جیسے تفریحی کھیلوں کے لیے پیشگی اجازت حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
تاہم، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی اقدامات اکثر عملی طور پر نافذ نہیں کیے جاتے ہیں۔
استولا جزیرہ : سیاحت اور ٹرالنگ
بلوچستان کے ساحل سے تقریباً 25 کلومیٹر دور بحیرہ ءعرب میں الگ تھلگ واقع استولا جزیرہ کو 2017 میں ایک سمندری محفوظ علاقہ (ایم پی اے) قرار دیا گیا تاکہ اس کے گرد موجود حیاتیاتی تنوع بشمول مونگے کی چٹانوں کی کئی اقسام، کچھوے اور وہیل مچھلیاں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
جزیرے کے گرد سمندر کا پانی خشکی سے آنے والے ماہی گیروں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے، جو ایک ماہ میں دو بار
چھوٹی کشتیوں پر وہاں مچھلی پکڑنے آتے ہیں۔ ان ماہی گیر برادریوں نے اس وقت استولا کو سمندری محفوظ علاقہ (ایم پی اے) قرار دیے جانے پر خوشی منائی تھی۔
عبدالغفور، جو پسنی کے رہائشی ماہی گیر ہیں، یاد کرتے ہیں، ”ہم پر امید اوربے حد خوش تھے کہ حکومت بالآخر ان سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مداخلت کرے گی جنہوں نے برسوں میں ہماری مچھلیوںکا شکار کم کر دیا تھا”۔
غفور کو توقع تھی کہ ایم پی اے قرار دیے جانے کے بعد بے دریغ سیاحتی کیمپوں، ماہی گیری کے ممکنہ جالوں اور اس علاقے میں کام کرنے والے ٹرالروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جو سمندری ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لیکن غفور کے لیے اب یہ امید مایوسی میں بدل چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں،”میں نے جزیرے کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی
کارروائی نہیں دیکھی۔ ممنوعہ جال اب بھی موجود ہیں۔ سیاح اور ٹرالنگ کرنے والے آتے ہیں، ہمارے روز گار کے مسکن کو
تباہ کر دیتے ہیں، اور ہمارے لیے مچھلیاں تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہیں۔“
استولا ایم پی اے کے اعلامیے میں ٹرالنگ پر واضح پابندی عائد نہیں کی گئی تھی، اگرچہ کیمپ لگانے اور کئی سیاحتی
سرگرمیوں کو محدود ضرور کیا گیا تھا۔ اپریل 2025 میں بلوچستان حکومت نے اس ایم پی اے کے لیے ایک انتظامی منصوبے کی باضابطہ منظوری دی، مگر مقامی افراد اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا، اورقانون پر عمل درآمد کے لیے ابھی تک کسی افسرکو تعینات نہیں کیا گیا۔
چرنا: جہاں تیل خطرے کا سبب !
چرنا جزیرے کو بطور سمندری محفوظ علاقہ بنانے کی تجویز 2019 میں پیش کی گئی تھی اور یہ گزشتہ سال باضابطہ طور پرقائم کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد مونگے کی چٹانیں اور مچھلیوں کا تحفظ تھا، جنہیں بے تحاشہ سیاحت، قریب ہی ایک بڑی تیل
ریفائنری کی تعمیر اور خام تیل کے ٹینکروں کے لیے بڑے (buoys)نصب کرنے سے خطرہ لاحق تھا۔
چرنا جزیرے کا تحفظ ایک مشکل کام ثابت ہوا ہے کیونکہ یہاں موجود زیر زمین تیل اور سیاحت کی صنعت کے لیے اس کی نمایاں تجارتی اہمیت تحفظ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی سیاست دانوں کے لیے بھی ایک پرکشش مقام بن گیا ہے۔

بطور سمندری محفوظ علاقہ ، ایسے تمام اقدامات پر پابندی عائد ہے ۔ ٹرالروں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے مچھلیوں کے
ذخائر متاثر ہو رہے ہیں، جس کے باعث چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے ماہی گیر اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے ان
سستے لیکن خطرناک جالوں پر انحصار کرتے ہیں۔
(تصویر: حوّا فضل)
بلوچستان کے محکمہ ءجنگلات و جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر شریف الدین بلوچ کا کہنا ہے، ”بہت سے طاقتور عناصر نے اس عمل میں رکاوٹیں ڈالیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ جزیرہ ایک سمندری محفوظ علاقہ (ایم پی اے)قرار پائے”۔
چرنا بالآخر شریف الدین بلوچ کی انتھک کوششوں، دیگر سرگرم کارکنوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون، اور مثبت میڈیا کوریج کے نتیجے میں سمندری محفوظ علاقہ (ایم پی اے) قرار پایا۔
تاہم، اس اعلان کے ایک سال بعد بھی مقامی لوگوں نے کوئی واضح تبدیلی محسوس نہیں کی۔
چرنا کے حوالے سے مقامی حکومت کے منتخب نمائندے سرفراز علی کہتے ہیں، ”میں نے سنا تھا کہ چرنا کو کسی قسم کا تحفظ دیا گیا ہے،لیکن یہ کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس بارے میں گاوں میں کسی کو، بشمول میرے، کچھ معلوم نہیں۔“
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ٹرالنگ، کرنٹ کے ذریعے مچھلیاں پکڑنا اور سیاحوں کا مونگے کی چٹانوں کو نقصان پہنچانا اب بھی
معمول کی بات ہے، اور انہیں روکنے والا کوئی سرکاری اہل کار موجود نہیں۔
میانی ہور: پاکستان کا نیا “محفوظ” علاقہ !
میانی ہور کے بارے میں بھی صورت حال وہی ہے اور اسی طرح کی کہانیاں سننے میں آتی ہیں۔ یہ ملک کی سب سے بڑی جھیل
(لگون) ہے، جو سمندری حیات سے مالامال ہے اور اسے بشمول سیکڑوں اقسام کی مچھلیاں، پرندے، دودھ پلانے والے جاندار اور غیرفقاری جان داروں کی وجہ سے منتخب کیا گیا۔
سماجی کارکن خلیل رونجھا، جو اسی جھیل کے قریبی علاقے میں رہتے ہیں، کہتے ہیں ” لوگوں کو اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ اس جگہ کوسمندری محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ جن چند لوگوں کو معلوم بھی ہے، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا مطلب کیا
ہے۔“
حکام تاخیر کی بنیادی وجہ فنڈز کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان کے محکمہ جنگلی حیات و جنگلات کے ڈائریکٹر جنرل سیکرٹری عبدالفتح بھنگر کے مطابق ”ماحولیاتی محکموں کو ہمیشہ کم ترجیح دی جاتی ہے اور انہیں بجٹ میں صرف برائے نام حصہ ملتا ہے”۔
ان کے ساتھی شریف الدین بلوچ بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں ” قوانین پر عمل درآمد کے لیے ایسے عملے کی ضرورت ہوتی ہے جو موقع پر موجود رہ کر علاقوں کی نگرانی کر سکے، اور ایسی بڑی کشتیوں کی بھی جن میں وہ قیام کر سکیں۔ لیکن محکمے کے پاس نہ یہ عملہ ہے، نہ کشتیاں، اور نہ ہی انہیں حاصل کرنے کے لیے فنڈز دستیاب ہیں”۔
معاونت اور مقامی برادریوں کی فعال شمولیت سے جاری ہے۔ اس کے برعکس، حکومت نے تاحال اس سمندری محفوظ علاقے
کے ماحول کے تحفظ یا بہتری کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے ہیں۔
(تصویر: حوّا فضل)
بلوچ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ محکمہ نسبتاً نیا ہے۔ 2021 میں قائم ہونے والا یہ ادارہ پہلے ہی ایک وسیع نیٹ ورک کی نگرانی کر رہا ہے، جس میں چار نیشنل پارکس، دو وائلڈ لائف سینکچریز، تین سمندری محفوظ علاقے، سات ریزروز اور آٹھ کمیونٹی پر مبنی کنزرویئنسیز شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ یہ محکمہ سرمائی نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے غیر قانونی شکار کی روک تھام کی ذمے داری بھی ادا کر رہا ہے۔
جنگلات و جنگلی حیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل دستین جمال دینی، جنہوں نے استولا کے انتظامی منصوبے اور چرنا جزیرے کے میرین پروٹیکٹڈ ایریا کے قیام کی نگرانی کی تھی، اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ مسئلہ پیسوں کا ہے ”وسائل موجود ہیں،لیکن موثر قیادت نہیں ہے”۔
بلا تاخیر عمل درآمد
ڈیٹا بیس پروٹیکٹڈ پلینیٹ کے مطابق، پاکستان نے اپنی زمینی حدود اور آبی علاقوں کا 19.21 فیصد حصہ محفوظ قرار دیا ہے، جو اس کے سمندری تحفظ کے اہداف سے بہت کم ہے۔
موریانی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ مل کر مزید
سمندری محفوظ علاقے (MPAs)قائم کرنے پر کام کر رہی ہے، اور سندھ میں ایسے علاقوں کے انتخاب کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز جاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر موثر علاقوں کی دریافت بھی جا ری ہے۔ یہ علاقے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے مخصوص نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی دیگر وجوہات کی بنا پر اہم ہوتے ہیں مثلا جیسے مقدس مقامات اور نجی ساحلی علاقے وغیرہ۔
جب حکومت 30×30 کے ہدف تک پہنچنے کے لیے اپنے اختیارات پر غور کر رہی ہے، تو وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اپنی
سمندری حدود کے محض ایک انتہائی چھوٹے حصے کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ، پاکستان کن منگ،مونٹریال کی آخری تاریخ کی طرف تقریباً خالی ہاتھ بڑھ رہا ہے۔
یہ رپورٹ انٹرنیوز کے ارتھ جرنلزم نیٹ ورک (Earth Journalism Network) کی معاونت سے تیار کی گئی ہے۔



