جیسا کہ دنیا بھر میں مسلمان عید منانے کی تیاری کر رہے ہیں، پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے لئے مذہبی تعطیلات 2022 کے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے جاری مسائل کی وجہ سے خراب ہو گئیں ہیں۔ جنوبی صوبہ سندھ کے بڑے علاقے زیر آب ہیں، جبکہ سیلاب کی وجہ سے نکاسی آب کے نظام کو پہنچنے والا نقصان بستیوں کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔
سندھ کے گاؤں آدھو جمالی کے ایک کسان علی اکبر جمالی نے کہا کہ سیلاب کا پانی پے در پے مصیبتوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ دی تھرڈ پول سے گفتگو کرتے ہوئے جمالی نے کہا کہ پانی ابھی مکمل طور پر نہیں اُترا ہے اور حکام اِس کے اِخراج میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ علی کا خاندان، آدھو جمالی کے بہت سے رہائشیوں کے ساتھ، اب بھی ایک خیمے میں رہ رہا ہے اور اپنے گھر کو دوبارہ تعمیر نہیں کر سکا ہے۔
جمالی کہتے ہیں کہ”بارش نے ہماری کپاس کی کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا۔ کھیتی باڑی کی زمینوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے گندم کی اگلی فصل کی بوائی بھی ممکن نہیں تھی،” انہوں نے مزید کہا کہ لوگ گندم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور خوراک کی کمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارے علاقوں میں اسکولوں اور اسپتالوں کی عمارتوں میں پانی کھڑا ہوا ہے۔ یہ ہمارے لئے اور ہمارے خاندانوں کے لئے بھی نہایت پریشان کُن ہے۔‘‘
یونائیٹڈ نیشنز آفس فار دی کوآرڈینیشن آف ہیومینیٹیرین افیئرز کی تازہ ترین رپورٹ جو 9 مارچ 2023 کو شائع ہوئی تھی، میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں 31,000 سے زائد افراد اندرونی طور پر بے گھر ہیں۔ ملک بھر میں، تقریباً 1.8 ملین لوگ اب بھی ٹھہرے ہوئے پانی کے تالابوں کے قریب رہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے حشرات کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماری (جیسے مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی بخار کا پھیلنا) کی سطح بلند ہو رہی ہے، ناقص اور ناکافی غذا سے پیدا ہونے والی خرابیاں ، اور لوگوں کے کام کرنے کی صلاحیت میں خلل پڑ رہا ہے۔ رپورٹ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تقریباً 4.3 ملین مزدور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا اُنہیں معاشی ابتری کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
سندھ 2022 کے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور 12 ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جو کہ صوبے کی تقریباً 50 ملین (پانچ کروڑ ) کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ تقریباً 1.5 ملین (پندرہ لاکھ) مکانات تباہ ہوئے، مزید 0.6 ملین (چھ لاکھ)کو جزوی نقصان پہنچا، اور تقریباً 1.5 ملین (پندرہ لاکھ) ہیکٹر فصلوں کو نقصان پہنچا۔
سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے مارچ میں دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “گزشتہ سال سندھ میں سیلاب کے دوران پانی کی زد میں آنے والے 98 فیصد علاقے سے پانی خارج کر دیا گیا ہے۔ صرف کچھ علاقے جو کہ نشیبی ہیں اور جہاں زمینی سطحوں پر گڑھے ہیں، اب بھی زیر آب ہیں۔”
اُن کا یہ بیان اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) کی سیٹلائٹ تصویروں سے متصادم تھا، جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ سیلاب کا پانی اگست 2022 کے اوائل میں 2,315 مربع کلومیٹر سے پیچھے ہٹ کر فروری 2023 کے آخر تک 850 مربع کلومیٹر رہ گیا تھا۔جو کہ تقریباً 63 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن یہ اب بھی تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) افراد کو سیلابی پانی کے قریب رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔
لوگ مشکل موسم سرما سے باہر آئے ہیں لیکن اب اُنہیں شدید گر میوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کاسامنا کرنا پڑے گا۔
خواتین سخت دباؤ کا شکار ہیں
سیلاب کے بعد سے سونی جمالی، گاؤں اللہ یار جمالی میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ایک خیمے میں رہ رہی ہیں، جہاں ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔
دس بچوں کی پرورش کے ساتھ، وہ بے شمار مصائب اور مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارے لئے کوئی حکومتی امداد نہیں ہے۔” سونی اور اس کے شوہر زرعی مزدور ہیں، لیکن ’’گزشتہ سال بارشوں کی وجہ سے ہماری کھڑی فصلیں اور مویشی بہہ گئے۔ ہم مقروض ہیں۔ لوگ اپنے پیسے مانگ رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس انہیں واپس کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔”
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے بے گھر ہونے والوں کو دیگر سہولیات کے علاوہ سات لاکھ سے زیادہ خیمے فراہم کئے ہیں۔ اس کے باوجود، بہت سے لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو بھی بمشکل ہی پورا کر پارہے ہیں، خاص طور پر خواتین جنہیں رازداری کی کمی وجہ سے اضافی مشکلات کا سامنا ہے۔
سونی کی ایک رشتہ دار، ساجدہ جمالی جوخود بھی گاؤں اللہ یار جمالی میں رہتی ہیں، نے کہا کہ بیت الخلاء کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ “یہ شرم کی بات ہے، کیونکہ ہم خواتین ہیں۔” غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ نے فوری ضرورت کے لئے عارضی بیت الخلاء فراہم کئے، لیکن پندرہ گھرانوں کے لئے صرف ایک بیت الخلاء مختص ہے اِسی لئے بہت سے لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔
نکاسی آب کے انفراسٹرکچر کی مرمت کے لئے پیسے نہیں ہیں
مسئلہ باقی ماندہ پانی کو نکالنے سے آگے کا ہے۔ وزیر آبپاشی جام خان شورو نے کہا کہ ابھی اِس بات کی اَشد ضرورت ہے کہ صوبے کی نہروں کے مربوط نظام، پانی کی رُکاوٹ کے لئے باندھے جانے والے کچّے اور پختہ بندوں اور نکاسی کے دیگر انفرااسٹرکچرز کی مرمت کی جائے۔ شورو نے کہا کہ “ہمیں صرف سندھ میں نکاسی آب کی بحالی کے لئے سو ارب پاکستانی روپوں (350 ملین امریکی ڈالرز ) کی ضرورت ہے۔”
شورو نے آسان طریقوں سے حاصل ہونے والے فنڈز کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ “اب تک نکاسی آب کی بحالی کے لئے صرف عارضی انتظامات کئے گئے ہیں۔”
وزیر نے کہا کہ کل رپورٹ کردہ 5,335 میں سے 236 شگافوں کو پُر کیا گیا ہے۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو یہ بھی بتایا کہ حکام اس بات کا مطالعہ کر رہے تھےکہ کیا لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (LBOD) کے نکاسی آب کو دوبارہ ڈیزائن کرنا ہمارے لئے سود مند ہو گا بھی یا نہیں۔ LBOD، جو 1988 میں فعال ہوا ، یہ نکاسی آب کا نالا اِس لئے بنایا گیا تھا کہ وہ سندھ کی زرعی زمینوں سے نمکیات آمیز پانی اور اِن پر موجود سیلابی پانی کو نکال کر بحیرہ عرب میں چھوڑے گا۔
ایک ‘حل’ جو مسئلے کا حصہ ہو سکتا ہے
وزیر نے کہا کہ “یہ جاننے کے لئے اِس مجوزہ منصوبے کے قابل عمل ہونے کا مطالعہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر LBOD سےپانی کے اخراج کی صلاحیت کو بڑھایا جاتا ہے تو کس طرح کے ماحولیاتی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔”
تاہم، دوسروں کا کہنا ہے کہ LBOD اس مسئلے کا حصہ ہے۔
بدین، سندھ میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم، لاڑ ہیومینٹیرین اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام، جوکہ صوبے میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر کام کرتی ہے، کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال حیدر نے کہا کہ “سندھ کے بائیں جانب کے اضلاع میں نکاسی کے صدیوں پرانے قدرتی طریقے موجود ہیں۔” تاہم LBOD اسے زیرو پوائنٹ پر کراس کرتا ہے )جہاں نہر بحیرہ عرب سے ملتی ہے( جو خاص طور پر سیلاب کے دوران نکاسی کا مسئلہ پیدا کرتی ہے۔”
حیدر نے کہا کہ اس کے نتیجے میں بدین اور آس پاس کے علاقے حالیہ تاریخ میں تین بار سیلاب کی زد میں آ چکے ہیں جن میں 1994 کے سیلاب، 1999 کے طوفان اور 2022 کے سیلاب شامل ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ 2022 کے سیلابی پانی نے LBOD کو بھر دیا، بحیرہ عرب میں اونچی لہروں کے واقعات کے دوران موجوں کے دباؤ کی وجہ سےسمندری پانی نالے میں چلا گیا، جس کے نتیجے میں کھیتوں میں کھارا پانی داخل ہو گیا۔
حیدر نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قدرتی نکاسی آب کے نظام پر غیر قانونی تعمیرات نے تحفّظِ آب کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ “حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ LBOD کو بحال کرے گی۔ تاہم، یہ مسئلہ مستقل طور پر حل نہیں ہو گا جب تک نکاسی کا ایسا نظام نہ بنایا جائے جو سمندر میں چھوڑے جانے والے پانی کے قدرتی راستوں کے بہاؤ میں معاون ہو اور اِس پر موجود تجاوزات کو ہٹادیا جائے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا کے بندوں کو مضبوط کرنا اور نکاسی آب کے نظام کا تفصیلی معائنہ اور مرمت اہم ترین کاموں میں سے ہے۔
سندھ میں محکمہ آبپاشی کے سابق سیکریٹری خالد حیدر میمن نےدی تھرڈ پول کو بتایا کہ “اگر 1.2 ملین (بارہ لاکھ ) کیوسک پانی لے کر آنے والا سیلاب آتا ہے تو دریائے سندھ کے موجودہ بند اِسے سہار نہیں سکتے۔ اس لئے خدشہ ہے کہ سندھ کو 2022 سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”
زرعی گروپوں کی نمائندگی کرنے والے سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر سید ندیم شاہ نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے شدید موسم کا سامنا کرنے کے قابل نکاسی آب کا نظام زراعت کے لئے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22 فیصد ہے اور سندھ زرعی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ ہے، جس کی 75 فیصد آبادی اس شعبے سے وابستہ ہے۔
شاہ نے خبردار کیا کہ “موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی مشکلات کے پیش نظر نکاسی آب کی بہتری کو نظر انداز کرنا پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ 2022 میں ہوا۔”