آب و ہوا

پاکستان میں سیلاب پاکستانی بچوں پر دیرپا ذہنی اور جذباتی اثرات چھوڑ رہا ہے

سیلاب کی تباہی نے پاکستان کے بچوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، ان کی ذہنی صحت اور تعلیم معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔
اردو
<p>اگست 2025 کے وسط میں سوات، خیبر پختونخواہ میں ایک بچہ سیلاب سے تباہ ہونے والے مکانات کو دیکھ رہا ہے (تصویر: کامران خان/الامی)</p>

اگست 2025 کے وسط میں سوات، خیبر پختونخواہ میں ایک بچہ سیلاب سے تباہ ہونے والے مکانات کو دیکھ رہا ہے (تصویر: کامران خان/الامی)

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں رہنے والے نو سالہ محمد آذان کے والدین اور اس کے تین بھائی طوفانی سیلاب کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔

اب آذان کی کفالت اس کے چاچا شمس الرحمٰن کرتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ “آذان یہ جانتا ہے کہ اس کے والدین اب نہیں رہے، مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ ان کے بغیر زندگی کیسے گزارنی ہے”۔

اگست کے مہینے میں آنے والے ضلع بونیر کے طوفانی سیلاب نے کئی خاندان مِٹا دیے اور کئی بچوں کو یتیم کردیا۔

اسی ضلع کے ایک اور رہائشی 17 سالہ قادر احمد کا گھر بھی سیلاب میں زمین بوس ہوگیا اور والدین ہلاک ہوگئے۔ قادر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “پانی میری ماں کو بہا لے گیا… اب مجھے ہی اپنے [چار] چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا ہے”۔

حال ہی میں احمد نے اپنی میٹرک کی پڑھائی مکمل کی تھی اور وہ کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ مگر اب اس کا یہ خواب ادھورا رہ جائے گا۔

“گھر اور ماں کو کھونے کے بعد بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرنا مجھے بہت مشکل لگ رہا ہے۔”

پاکستان غیر معمولی بارشوں اور لینڈ سلائیڈز کے نتیجے میں بدترین سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق سیلاب کے باعث جون کے آخر سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔

سیلاب کے باعث خیبر پختونخوا میں سب سے ذیادہ تباہی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تقریبا 4,700 گھر تباه یا متاثر ہوئے ہیں۔

سیلاب نے ملک کے دیگر حصے بھی نہیں چھوڑے۔ پنجاب میں اگست کے مہینے میں ہونے والی تاریخی بارشوں کے بعد بڑے دریاوٗں میں تغیانی آئی۔جبکہ سرحد پار یعنی انڈیا سے آنے والے پانی نے مزید دیہات اور کھیت ڈبو دیے۔

سیلاب کے بعد اب تک دو ملین سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ البتہ ان علاقوں میں کھڑے پانی سے پھیلنے والے امراض جیسے ہیضہ، ٹائیفائیڈ، اور ہیپاٹائٹس اے کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔

شمالی گلگت بلتستان میں کئی وادیاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوئی ہیں اور 3,000 سے زائد افراد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

سندھ کے علاقے میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

احمد اور آذان کی کہانیاں صرف چند مثالیں ہیں کہ کس طرح پاکستان میں آنے والے سیلاب بچوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں اور ان پر ایسا ذہنی دباؤ ڈال رہے ہیں جس کے اثرات طویل عرصے تک رہیں گے۔

علاج کے بغیر صدمہ

گلگت بلتستان کے گاؤں خلتی میں استاد وسیم اکرم کا اسکول اگست کے وسط میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہوگیا تھا۔”بچے اسکول نہیں جا رہے۔ ان کے پاس نہ کتابیں ہیں، نہ یونیفارم اور نہ ہی رہائش۔ ان کے رویے میں بھی کافی بدلاوؐ آیا ہے۔ وه غصہ، خوف یا خاموشی کا اظہار کرتے ہیں”

استاد وسیم اکرم نے مذید بتایا کہ ان حالات کے باعث “بہت سے بچے شاید ہمیشہ کے لیے تعلیم چھوڑ دیں۔”

ریسکیو 1122 کے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد سہیل کے مطابق، فی الحال پاکستان میں ہنگامی امداد کا فوکس صرف جسمانی ریسکیو تک محدود ہے لیکن ذہنی صحت ابھی اتنی ہی اہم نہیں ہے۔

ان کہنا ہے کہ ان علاقوں میں منظم نفسیاتی مدد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

 
“کچھ افسران کو ذہنی امداد فراہم کرنے کی تربیت دی گئی ہے، لیکن (Psychological First Aid) نفسیاتی ابتدائی امداد بچوں کے لیے طویل مدتی کونسلنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ یہ حالات ایسی ذہنی زخم چھوڑ دیتے ہے جو برسوں رہتے ہیں۔”
محمد سہیل، ریسکیو 1122 کے میڈیا کوآرڈینیٹر، آفات سے بچاؤ کے لیے ایک سرکاری ایمرجنسی سروس

سماجی کارکن فریحہ شیخ سیالکوٹ اور نارووال کے قریب دیہات میں رضاکارانہ طور پر کھانے پینے کی اشیاء، نسوانی ضروریات کی اشیا اور دیگر سامان تقسیم کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کے باعث بچے سب سے زیاده متاثره ہوئے ہیں۔

“”کئی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور کھلے آسمان تلے یا عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ دیہاتوں کے بچے سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔”آپ ان کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی دیکھ سکتے ہیں… ان کی معمول کی زندگی ابھی چھن گئی ہے،” وہ مزید کہتی ہیں، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بہت سے لوگوں کو گھبراہٹ کے حملوں کا سامنا ہے۔

اپنے رضاکارانہ کام کے ذریعے فریحہ نے ایسے بچوں کا سامنا کیا جنہوں نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے۔ “یہ دل دہلا دینے والا ہے۔ کچھ بچوں کو پوری طرح سے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان کے والدین اب وہاں نہیں ہیں،” وہ کہتی ہیں۔

ان تباہ کن ہلچل میں جسمانی خطرات اور تبدیلیاں بھی شامل ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ فریحہ کہتی ہیں، “بچے [سیلاب کے] گندے پانی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں، اور اسکول یا تو تباہ ہو رہے ہیں یا پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔”

سیلاب کا سامنا کرنے والے بچوں کو جو صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان خطرات سے بڑھ جاتا ہے جو انہیں غربت، نقل مکانی اور اسکولوں کی بندش سے درپیش ہوتے ہیں۔ دی نیشن کے مطابق، اکیلے پنجاب میں، 700,000 سے زیادہ بچے اپنی تعلیم میں خلل کے باعث متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ستمبر کے وسط تک سیلاب کی وجہ سے 2,900 سے زیادہ اسکول بند ہونے پر مجبور ہوئے۔

یونیسیف نے پاکستان میں 2022 کے سیلاب کے بعد خبردار کیا تھا کہ جتنے طویل اسکول بند رہیں گے، متاثر ہونے والے بچوں کے اسکول چھوڑنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا، جس کے بعد انہیں چائلڈ لیبر اور شادی پر مجبور کیے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

جب پالیسیاں بچوں کو بھلا دیتی ہیں

ماحولیاتی کنسلٹنسی دریالاب اور کراچی کے کلائمٹ ایکشن سینٹر کے بانی یاسر دریا کے مطابق پاکستان کی تیاری کی کمی نے قدرتی آفات کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔

وه بتاتے ہیں کہ 2022 کے سیلاب کے بعد بنائے جانے والا ابتدائی وارننگ سسٹمز کا منصوبہ عملدرامد نہیں ہو سکا۔ اس ناکامی کا سبب وه بدانتظامی کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ “کئی متاثرہ کمیونٹیز آج بھی کٹی ہوئی ہیں اور غیر محفوظ ہیں یہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ سماجی بحران بھی ہے۔”

ان کا مزید کہنا ہے کہ “ان ناکامیوں کی وجہ سے شدید موسمی اور ماحولیاتی واقعات کے اثرات مزید بڑھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی ذہنی صحت پر سخت منفی اثرات پڑتے ہیں۔”

ہمیں صرف راشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں مناسب مکانات، اسکولوں، اسپتالوں، لائبریریوں اور تفریحی مقامات کی ضرورت ہے تاکہ بچے دوبارہ نارمل محسوس کر سکیں
وسیم اکرم، سکول ٹیچر

رواں برس محققین نے “ماحول سے پیدا ہونے والے بچوں کے منفی تجربات

کی اصطلاح متعارف کروائی ہے۔ یہ ایسے شدید ذہنی دباؤ کو بیان  (E-ACEs)کرتی ہے جو بچے طویل یا بار بار آنے والی موسمی آفات کے نتیجے میں سہتے ہیں۔ یہ دباؤ اس ذہنی صدمے جیسا ہوتا ہے جو بدسلوکی یا نظراندازی کے شکار بچوں میں دیکھا جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بار بار سیلاب کا سامنا، بے گھری اور خاندان سے بچھڑنے کے تجربات بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتے ہیں اور انہیں صحت کے خطرات کا شکار بنا سکتے ہیں۔ محققین نے ماحولیاتی بحران سے منسلک ان صدمات کو اکیسویں صدی کا انسانی بحران قرار دیا ہے جو خاص طور پر پاکستان جیسے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کے بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔

اس واضح ضرورت کے باوجود کہ بچوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچایا جائے، پاکستان کی کلائمٹ پالیسیوں میں بچوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس سال شائع ہونے والی ابتدائی چائلڈ ہڈ ڈیولپمنٹ ایکشن نیٹ ورک کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے وه دس ممالک جہاں 2100 تک سب سے بڑی آبادی متوقع ہے، ان میں سے صرف چھ نے اپنی

قومی کلائمٹ پالیسیوں میں بچوں یا نوجوانوں کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان ان میں شامل ہے، مگر یہاں بھی بچوں کا ذکر صرف شرح اموات تک محدود ہے۔ ان پالیسیوں میں تعلیم، صحت یا غذائیت جیسے وسیع تر مسائل کو نظرانداز کیا گیا ہے جو آفات کے دوران بچوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

شمالی پاکستان میں آذان اور قادر جیسے بچوں کے خاندان اس منصوبہ بندی کی غیر موجودگی کو بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، متاثره کمیونٹیز کو جو خوراک اور خیمے دیے جاتے ہیں وه صرف چند دن چلتے ہیں جبکہ تعلیم مہینوں تک معطل رہتی ہے۔

بقا سے آگے

 استاد وسیم اکرم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امداد صرف خیموں اور راشن تک محدود نہ ہو بلکہ بحالی پر توجہ دی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ “ہمیں صرف راشن نہیں چاہیے، ہمیں گھروں، اسکولوں، اسپتالوں، لائبریریوں اور کھیل کے میدانوں کی ضرورت ہے تاکہ بچے پھر سے ایک عام زندگی گزار سکیں۔ ورنہ یہ بچے اپنا مستقبل کھو دیں گے۔”

سماجی کارکن فریحہ شیخ بھی انہی خدشات کا اظہار کرتی ہیں: “[بچوں کو] کھانا، صاف پانی اور دوائیاں چاہئیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ محفوظ جگہیں اور خیال بھی ضروری ہیں۔ ان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی جسمانی بقا ہے۔ ایک بچے کے لیے گھر اور تحفظ کھونا بہت بڑا صدمہ ہے۔”

اب جب کہ ملک کے کئی حصوں میں پانی اترنا شروع ہو گیا ہے، خاندان اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور دوباره تعمیر کا مشکل مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ لیکن بہت سے بچوں پر گزرنے والے صدمے واضح ہیں۔ اذان اب بارش یا طوفان میں اپنے چچا سے لپٹ کر رہتا ہے۔


جب تک بے گھر اور متاثرہ آبادی کی موافقت اور دیکھ بھال میں تیزی سے سرمایہ کاری نہیں کی جاتی اور ساتھ ہی ساتھ قومی موسمیاتی موافقت کی پالیسیوں میں بچوں کو شامل نہیں کیا جاتا، پاکستان ایک ایسی نسل کی پرورش کے خطرے سے دوچار ہے جو ان کی صلاحیتوں سے نہیں بلکہ بچپن کے دوران ہونے والے نقصانات سے پہچانی جائے گی۔

Privacy Overview

This website uses cookies so that we can provide you with the best user experience possible. Cookie information is stored in your browser and performs functions such as recognising you when you return to our website and helping our team to understand which sections of the website you find most interesting and useful.

Strictly Necessary Cookies

Strictly Necessary Cookie should be enabled at all times so that we can save your preferences for cookie settings.

Analytics

This website uses Google Analytics to collect anonymous information such as the number of visitors to the site, and the most popular pages.

Keeping this cookie enabled helps us to improve our website.

Marketing

This website uses the following additional cookies:

(List the cookies that you are using on the website here.)