گزشتہ سالوں کے مقابلے میں، اس سال اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس سی او پی28 کو ممکنہ طور پر کلائمیٹ فنانس سے نمٹنے کی اسکی صلاحیت کی بنیاد پر پرکھا جاۓ گا۔ میزبان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے سربراہی اجلاس کے اپنے بیان کردہ اہداف میں پہلے سے ہی اس بات کا عندیہ دیا ہے، جو کہ چار ستونوں پر منحصر ہے، i) توانائی کی منتقلی کو تیزی سے ٹریک کرنا؛ ii) کلائمیٹ فنانس کو ٹھیک کرنا؛ iii) لوگوں کی زندگیوں اور معاش پر توجہ مرکوز کرنا؛ اور iv) مکمل شمولیت۔
یہ سب یا تو براہ راست کلائمیٹ فنانس سے متعلق ہیں یا صرف موسمیاتی مالیات کو صحیح فراہمی سے ہی ممکن بناۓ جاسکتے ہیں۔ اب موسمیاتی مالیات کو ایک واحد مسئلہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ آب و ہوا کے ایجنڈے پر تقریباً تمام اہداف کے حصول کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاسوں میں رسمی بات چیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ سی او پی سے باہر بھی اس پر بات چیت ہورہی ہے۔
اس سال کے سی او پی کا پروگرام اس اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے جو یو اے ای کلائمیٹ فنانس کو دے رہا ہے۔ گزشتہ سی او پیز کی روایت کے مطابق ایک دن اہم کے مسائل کے لئے وقف کیا جاتا ہے، اور 4 دسمبر 2023 کو موسمیاتی مالیات پر بحث کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سی او پی کی دو ہفتے کی پوری مدت کے لئے فنانس کو ایک کراس کٹنگ تھیم کے طور پر رکھا کیا گیا ہے۔ یہ باضابطہ مذاکراتی کمروں کے باہر فنانس پر کارروائی کے لئے مواقعے فراہم کرنے میں معاون ہو گا۔
موسمیاتی مالیات کو مزید کم قیمت اور قابل رسائی بنائیں
موسمیاتی مالیات کی ایک بڑی ناکامی یہ رہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک 2020 تک ہر سال 100 بلین امریکی ڈالر فراہم کریں گے جس کا انہوں نے 2009 میں ترقی پذیر ممالک سے موسمیاتی کارروائی کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن یہ تعداد اس کے مقابلے میں کم ہے جس کی ضرورت تازہ ترین تحقیق ہمیں بتاتی ہے۔
کلائمیٹ پالیسی انیشیٹو (سی پی آئی) کی طرف سے 2 نومبر 2023 کو جاری کی گئی گلوبل کلائمیٹ فنانس میں ایک رپورٹ کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب سے 2050 تک ہر سال 10 ٹریلین امریکی ڈالر کی تخمینہ ضرورت کے مقابلے میں مجموعی طور پر موسمیاتی مالیاتی بہاؤ بڑھ کر 1.265 ٹریلین امریکی ڈالر سالانہ ہو گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے لئے اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اس مالیات کا زیادہ تر حصہ تخفیف کے لئے ہے، موافقت کے لئے نہیں، جو کہ تقریباً 63 بلین امریکی ڈالر ہر سال بنتا ہے، جو کہ سی پی آئی کے مطابق موافقت کے لئے درکار ہونے والے 212 بلین امریکی ڈالر سے کہیں کم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ترقی پذیر دنیا کے بیشتر حصے کو چھوڑ کر “چین، امریکہ، یورپ، برازیل، جاپان، اور بھارت نے 90 فیصد بڑھے ہوئے فنڈز حاصل کئے”۔
اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ سی پی آئی کے اندازے کے مطابق معمول کے کاروبار کے مقابلے میں، گلوبل وارمنگ کو 1850 سے پہلے کی سطح سے اوپر 1.5 سینٹی گریڈ کے اندر رکھنے سے، 2025 سے 2100 تک دنیا کو 1,266 ٹریلین امریکی ڈالر کے نقصان اور تباہی کی مد میں بچت ہوگی۔ سی او پی28 کو اب اس سے نمٹنا ہے، کیونکہ 2025 سے پہلے نیو کلیکٹو کوانٹیفائیڈ گول (این سی کیو جی) پر اتفاق کرنا ہوگا۔ اس سے 100 بلین امریکی ڈالر کا کیا گیا وعدہ اثرانداز ہوگا، لیکن سی او پی27 میں اس پر بہت کم پیش رفت ہوئی، اس لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
جہاں سفارت کار سی او پی28 کے دو ہفتوں کے دوران این سی کیو جی پر خاطرخواہ پیشرفت کے لئے کوشش کر رہے ہیں، ایوان صدر باضابطہ مذاکرات سے باہر بیک وقت ایک نئے کلائمیٹ فنانس انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں، نجی شعبے اور حکومتوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کےلئے لچک کو بڑھانے کے عالمی اہداف کے ساتھ عالمی اور گھریلو مالیاتی بہاؤ کو ہم آہنگ کرنے کے لئے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
موجودہ مالیاتی نظام کی تبدیلی کی حمایت کرنا صرف تب ترقی پذیر ممالک کے لئے معنی خیز ہوگا اگر یہ تبدیلیاں کم قیمت مالیات کو دستیاب اور قابل رسائی بنائیں؛ اگر وہ نئی ملازمتوں اور نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حمایت کریں؛ اگر وہ رسک لینے کے لئے تیار ہوں؛ اگر وہ غیر قرضی آلات متعارف کرانے کے لئے تیار ہوں؛ اور اگر وہ آب و ہوا کے دھچکوں جیسے سیلاب، خشک سالی، اور سطح سمندر میں اضافے سے نمٹنے کی ضرورت کو مدنظر رکھتی ہیں۔ اس سے ذرا بھی کمی کا مطلب امیر ممالک صورتحال کا مزید فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
توقع رکھیں کہ تخفیفی مالیات مختلف شکلوں اور سائزوں میں ہو گی
صرف معدنی ایندھن – کوئلہ، تیل اور گیس کا گلوبل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 75% سے زائد حصّہ ہے۔ متحدہ عرب امارات کی صدارت عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے، ہائیڈروجن کی پیداوار کو دوگنا کرنے، اور زرعی نظام کو تبدیل کرنے جیسے اہداف پر توجہ مرکوز کرتی نظر آتی ہے، یہ کس طرح سی او پی28 ایجنڈے سے باہر بڑھتی ہوئی پیش رفت کے ساتھ توازن قائم کرے گا، یہی تخفیف مالیات کی بنیاد ہوگی۔
اگرچہ معدنی ایندھن میں کمی یا فیز آؤٹ ابھی بھی باضابطہ سی او پی ایجنڈے کے تحت گفتگو کا موضوع ہے، دو سال قبل برطانیہ کی میزبانی میں سی او پی26 کے موقع پر، پہلی جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ (جے ای ٹی پی) کا اعلان کیا گیا تھا۔ مالیاتی تعاون کا ایک نیا طریقہ کار، جس کا آئیڈیا یہ ہے کہ کوئلے پر انحصار کرنے والی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی منتخب تعداد کی ایک منصفانہ توانائی کی منتقلی میں سپورٹ کیا جائے، جس میں ان کے متعلقہ توانائی کے نظام کو ایک جامع اور مساوی طریقے سے تبدیل کیا جائے۔
کشمالہ کاکاخیل
ترقی پذیر ممالک کی ایک بہت ہی سادہ مانگ ہے: 2025 تک موافقت مالیات دگنی کی جاۓ
جنوبی افریقہ جے ای ٹی پی میں داخل ہونے والا پہلا ایسا ملک ہے، جس نے فرانس، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ 8.5 بلین امریکی ڈالر کی مالیاتی فنڈنگ کا معاہدہ کیا۔ انڈونیشیا، ویتنام، اور سینیگال بھی اپنی اپنی جے ای ٹی پی شروع کرنے والے ہیں۔ کثیرالجہتی ترقیاتی بینک اور ترقیاتی مالیاتی ایجنسیاں مالی امداد کی پیشکش کرنے والے اداروں کے فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔
تخفیف مالیات کے حوالے سے سی او پی کے اندر مذاکرات سست روی کا شکار ہیں، کیونکہ ان میں 190 سے زیادہ ممالک کو اس بات پر متفق ہونا ہے کہ کس کو کس لیے ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے، اور کن شرائط کے تحت۔ تاہم، جے ای ٹی پیز کے معاملے میں، غیر واضح امید یہ ہے کہ چونکہ اس ماڈل میں اسٹیک ہولڈرز کی نسبتاً کم تعداد شامل ہے، اس لئے یہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات سے باہر بہت تیزی سے پیشرفت کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، جہاں بڑے گیس اور تیل پیدا کرنے والے ممالک آسانی سے ایسی تجاویز کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، جے ای ٹی پیز کے ساتھ جنوبی افریقہ کا تجربہ مشکل رہا ہے، اور جے ای ٹی پیز خود بنیادی طور پر قرضوں کی شکل میں تھا، جس نے ملکی قرضوں میں اضافہ کیا
زندگیوں اور معاش کو ترجیح دیں
ترقی پذیر ممالک کو ان کی توانائی کی منتقلی کے لئے مالیات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ موسمیاتی موافقت اور نقصان اور تباہی جیسے سنگین مسائل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا ایک بہت ہی سادہ مطالبہ ہے: 2025 تک موافقت کی دگنی مالی اعانت تاکہ وہ سیلاب، خشک سالی اور ان آفات سے نمٹ سکیں جو موسمیاتی تبدیلی ان پر لے کر آرہی ہے۔
یہ امید نظر آتی ہے کہ نقصان اور تباہی کا فنڈ اس سال فعال ہو جائے گا۔ یہ فنڈ ترقی یافتہ ممالک کی شدید مخالفت کے باوجود سی او پی27 میں قائم کیا گیا تھا۔ جب موافقت کے اقدامات ناکام ہو جاتے ہیں، اور ممالک موسمیاتی تباہی کا شکار ہوتے ہیں جن سے نمٹنا ان کی صلاحیت سے باہر ہو تب فنڈ کی طرف سے مدد کی جاتی ہے۔ اس محاذ پر دباؤ بھی اتنا ہی زیادہ ہے، کیوں کہ 2030 تک ضروریات 671 بلین امریکی ڈالر سالانہ تک پہنچنے کی توقع ہے، جبکہ نقصان اور تباہی کی مد میں موجودہ فنڈنگ 500 ملین امریکی ڈالر سالانہ سے کم ہے، جو کہ ناکافی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی صدارت کا مقصد مستقبل کے مالیاتی نظام کی بنیاد رکھنے کی خواہش سے طرح کم نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بذات خود کوئی چھوٹا ہدف نہیں ہے، میزبانوں کو پہلی مرتبہ عالمی اسٹاک ٹیک کے نتائج سے بھی نمٹنا پڑے گا، جو سی او پی 28 پر اختتام پذیر ہوگا۔ یہ عمل، جو پیرس معاہدے کے تحت ہر پانچ سال بعد موسمیاتی بحران پر عالمی ردعمل کا جائزہ لینے کے لئے ڈیزائن کیا گیا، اچھی خبر نہیں لاتا: سائنس کا کہنا ہے کہ اگر ہم درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سے نیچے رکھنا چاہتے ہیں تو 2030 تک عالمی اخراج میں 43 فیصد کمی ہونی چاہیے، لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2010 کے بعد سے اخراج میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ضرورت اور ترسیل ، خواہش اور سنگین حقیقت کے درمیان بڑے پیمانے پر رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے، سی او پی28 کے نامزد کردہ صدر، سلطان الجابر، طریقہ کار میں ایک بڑی اصلاح کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ “ہم توانائی کی منتقلی سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ ہم اس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔”
ایک دو مہینوں میں، ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا وہ کامیاب ہوۓ ہیں یا نہیں۔