آب و ہوا

رائے: 9 بلین امریکی ڈالر کا عہد ایک ابتداء ہے، لیکن پاکستان کو وعدوں سےکچھ زیادہ کی ضرورت ہے

گزشتہ ماہ جنیوا میں مالیات کا جو وعدہ کیا گیا وہ امید کی کرن تو ہے، لیکن بین الاقوامی امداد کے تجربے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ فنڈز عمل میں آئیں گے اور کیا ان کا موثر استعمال کیا جائے گا
اردو
<p>نومبر 2022 میں کوپ 27 کر دوران مظاہرین نے امیر اقوام پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کمیونٹیز کو نقصانات اور تباہی کے عیوض معاوضہ دیں (تصویر بشکریہ © میری جیکومین / گرین پیس)</p>

نومبر 2022 میں کوپ 27 کر دوران مظاہرین نے امیر اقوام پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کمیونٹیز کو نقصانات اور تباہی کے عیوض معاوضہ دیں (تصویر بشکریہ © میری جیکومین / گرین پیس)

گزشتہ ماہ، بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے حالیہ وقتوں کے بدترین قدرتی آفات میں سے ایک سے پاکستان کی بحالی کے لئے 9 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا۔ جنیوا میں یو این کے زیر اہتمام کانفرنس میں وعدہ کی گئی مالی اعانت کا انجکشن پاکستان کی مرتی ہوئی معیشت کے لئے بہت ضروری ہے، اور یہ دیکھنا کسی حد تک تسلی بخش ہے کہ دنیا اب بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ 2022 کے سیلاب سے 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے، اور یہ کہ اس آفت سے 30 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔

حکومت پاکستان نے جنیوا کے وعدوں کو بطور ایک بڑی کامیابی پیش کیا ہے۔ لیکن ان وعدوں سے وابستہ امیدیں ضرورت سے زیادہ ہیں۔ 

 پچھلے سال سیلاب پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کو وعدے اور فنڈز ملے ہیں۔  پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، ان شہ سرخیوں کے فوراً بعد، اقوام متحدہ نے فوری امداد کے لئے 160 ملین امریکی ڈالر کی فلیش اپیل شروع کی، اور اس ردعمل نے انسانی فلاحی برادری کو فوری طور پر جان بچانے والی امداد فراہم کرنے کا موقع دیا۔ تاہم سیلاب کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ مزید ضرورت ہے۔ لہٰذا، اپ ڈیٹ شدہ فلڈ ریسپانس پلان (ایف آر پی) اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور امدادی ایجنسیوں کو بھیجا گیا، اس ترمیم شدہ اپیل میں مزید 656 ملین امریکی ڈالر کی درخواست کی گئی۔ 

تاہم، جنوری کے اوائل تک، ملک کو 816 ملین امریکی ڈالر کی کل ہنگامی امداد میں سے صرف ایک تہائی موصول ہوئی،  جوگزشتہ اکتوبر میں زندہ بچ جانے والوں کے لئے خوراک، ادویات اور دیگر سامان کے لئے مانگی گئی تھی۔ اس نے جو فنڈز وصول کئے یا اکٹھے کئے ان کا موثر استعمال ایک اور نکتہ فکر تھا۔

حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوششوں میں:

  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی) کے تحت ملک بھر میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے 173 ملین امریکی ڈالر مختص کئے گئے۔ پاکستانی حکومت کی نیشنل سوشیو-اکنامک رجسٹری (این ایس ای آر) کے مطابق،  بی آئی ایس پی نے مطلع شدہ متاثرہ اضلاع میں تقریباً 4.6 ملین سب سے زیادہ متاثرہ خاندانوں میں سے ہر ایک کو 25,000 روپے (تقریباً 100 امریکی ڈالر) دیۓ؛ 
  •  نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو 5 بلین روپے (USD 18 ملین)؛
  • ہر اس شخص کو 1 ملین روپے ( 3,600 امریکی ڈالر) کا معاوضہ جس کے لواحقین سیلاب میں مر گئے؛ 500,000 روپے ( 1,800 امریکی ڈالر) جن کے گھر تباہ ہو گئے تھے؛  250,000 روپے  (1,000 امریکی ڈالر) ان لوگوں کے لئے جو زخمی ہوئے یا ان کے گھر کو نقصان پہنچا۔
  • پاکستانی شہریوں کے لئے سیلاب سے متعلق امدادی کارروائیوں میں حصہ ڈالنے کے لئے ایک فنڈ تشکیل دیا گیا۔ 

بی آئی ایس پی کے تحت اب تک 32 سیلاب زدہ اضلاع میں امداد کی تقسیم کی جا چکی ہے۔ اگرچہ اس امداد کے غبن کا ابھی تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا، لیکن سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی آن پاورٹی ایلویشن اینڈ سوشل سیفٹی دسمبر میں لکھتی ہے کہ 70 بلین روپے (تقریباً 250 ملین امریکی ڈالر) بغیر کسی نئے سروے کے تقسیم کئے گئے ہیں۔ 

مزید برآں، یہ تعداد سیلاب کی لاگت کے مقابلے میں کم ہے جو اکتوبر میں آفات کے فوری بعد پوسٹ-ڈیزاسٹر نیڈ اسسمنٹ (پی ڈی این اے) رپورٹ کے تحت حساب کی گئی ہے۔ اس کا تخمینہ 30.1 بلین امریکی ڈالر ہے، جس میں 14.9 بلین امریکی ڈالر نقصانات اور 15.2 بلین امریکی ڈالر کا خسارہ شامل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو لچکدار بحالی اور تعمیر نو کے لئے کم از کم 16.3 بلین امریکی ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ ستمبر 2022 تک، دیگر ممالک نے تعمیر نو کے لئے  اگلے تین سالوں میں 8 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا، جبکہ پاکستان کے مطابق ملک ریاستی مالیات سے بقیہ 8 بلین امریکی ڈالر اکٹھا کرے گا۔ 

 سیلاب سے ریکوری کے لئے پاکستان سے کئے گۓ وعدے پورے کرنے کی ضرورت ہے

ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ بالا فلیش اپیل کے دوران جو مالیات کا وعدہ کیا گیا تھا اس کا زیادہ تر حصہ اس کے اعلان کے مہینوں بعد بھی پورا ہونا باقی ہے۔

اسی طرح، ابھی تک اس بارے میں غیر یقینی صورتحال ہے کہ 9 بلین امریکی ڈالر کے وعدے میں سے کتنا حصہ اور کب پورا ہوگا۔ جنیوا وعدے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا کہ تقریباً 90 فیصد فنڈز دراصل پراجیکٹ کے لئے قرض ہیں۔

دریں اثنا، ماضی کا تجربہ امید افزا نہیں ہے، کیونکہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے موجودہ فنڈز کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ 2017 سے، یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ 100 ملین امریکی ڈالر کا ورلڈ بینک کا منصوبہ کراچی میں کچی آبادیوں کے سیلاب کے مسئلے کو کم کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس کے بجائے، اس کے بجٹ کا 3فیصد سے بھی کم خرچ کیا گیا ہے، اور اس میں سے کوئی بھی نئے انفراسٹرکچر سے متعلق نہیں ہے۔ 

پاکستانی معیشت میں 2022 میں مندی آئی۔ پچھلے سال کے سیلاب کے ساتھ ساتھ، روس یوکرین جنگ، گرمی کی شدید لہر اور سیاسی انتشار نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک  مانیٹری فنڈ سے قرض حاصل کرنے کے عمل میں ہے جو اسے مزید امداد حاصل کرنے، ضروری سامان درآمد کرنے اور ڈیفالٹ کو روکنے مدد کرے گا، لیکن عوام پر تقریباً 640 ملین امریکی ڈالر ٹیکس اور شرح سود میں اضافہ بھی عائد کرے گا، نتیجتاً لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہوگی۔ ان سب کے بیچ، بین الاقوامی برادری کی مدد کے بغیر، قوم آنے والے سالوں میں خوفناک سیلاب سے ہونے والے 30 بلین امریکی ڈالر کے نقصان کا ازالہ نہیں کر سکے گی۔ 

شدید موسمی واقعات اس وقت رونما ہو رہے ہیں جب دنیا صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں صرف 1.2 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ گلوبل وارمنگ کے ہر دسویں درجے کے ساتھ اس طرح کے واقعات مزید شدید اور کثرت سے ہوں گے۔ پھر بھی پاکستان کو پچھلے سال کی آفات سے نکلنے کے لیے مہینوں نہیں تو سال درکار ہوں گے، اور یہ اکیلے ممکن نہیں۔ عالمی برادری نے گزشتہ موسم گرما میں امداد کی اور اسے ضرورت کے دائرے میں رہتے ہوۓ مالی اعانت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے، خالی وعدے اور مہنگے قرضے اس مسئلے کا جواب نہیں۔

مترجم: ناہید اسرار