گزشتہ ہفتے کے آخر میں پاکستان میں آسمان صاف ہو گیا، جس سے سیلاب سے ہونے والے
نقصانات کا پتہ چلتا ہے اور جسے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس نےمون سون آن
سٹیرائڈز کا نام دیا ہے۔ اس سال کی تباہی نے 2010 میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو پیچھے چھوڑ
دیا ہے کیونکہ اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری
رحمان کے لیے بلائے گئے ایک اجلاس میں کہا کہ پہلی ستمبر کو اسلام آباد اقوام متحدہ کے
اگلے موسمیاتی مذاکرات کے تیاری کے لیے بلائے گئے ایک اجلاس میں کہا۔
رحمان نے کہا کہ “مونسٹر مون سون” کی وجہ سے آنے والے سیلاب ملک کی 45 فیصد فصلوں
کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئے ہیں، خصوصاً جنوب میں واقع صوبہ سندھ میں جس کا نصف حصہ
اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اب تک تقریباً 10 ارب
امریکی ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، اور ان سیلابوں کی وجہ سے تین کروڑ اور تیس لاکھ لوگ متاثر
ہوئے ہیں۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ حالیہ سیلاب اس سال پاکستان کی چاول کی پیداوار کو متاثر کرے گا۔ اس
کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے ، کیونکہ پاکستان پوری دنیا میں اناج برآمد کرنے والا چوتھا
سب سے بڑا ملک ہے۔
ابھی پوری طرح معلوم نہیں ہے کہ یہ تباہی کس حد تک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ
سے ہے۔ اس کا تعین کرنے کے لیے کہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئے ہیں سیلاب
سے منسوب ایک مخصوص مطالعہ کیا جا رہا ہے اور اس مطالعے کے نتائج اس مہینے کے آخر
میں متوقع ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلے ہی واضح ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اس تباہ کن
سیلاب کا ایک عنصر تھی۔
رحمان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ پاکستان اس نومبر میں مصر میں ہونے والے اقوام متحدہ کے
سالانہ موسمیاتی مذاکرات میں بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے ممالک پر نقصانات کی تلافی
کے لیے سخت دباؤ ڈالے گا۔ پاکستان اس وقت ترقی پذیر ممالک کے G-77 گروپ پلس چائنہ کی
سربراہی کررہا ہے اور نقصان اور ضرر کی مالیاتی سہولت کے قیام اور فعال ہونے کے لیے
زور دینے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
یہ سیلاب ماضی کی آفات سے مختلف ہے۔
بہت سی اخباری رپورٹس میں اس سال کے تباہ کن سیلاب کا 2010 کے سیلاب سے موازنہ کیا
گیا ہے۔ لیکن موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں واقعات کے درمیان میں مشترکات ہیں
لیکن کچھ نہایت اہم اختلافات ہیں جن سے حکام کو آگاہ ہونا چاہیے۔
فہد سعید جو کہ ایک عالمی تھنک ٹینک، کلائمیٹ اینالیٹکس، میں بطور موسمیاتی سائنسدان کام
کرتے ہیں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 2010 کی تباہی جولائی میں شمالی پاکستان کے پہاڑوں
میں بہت شدید بارشوں سے آنے والے دریائی سیلابوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔ سعید نے کہا کہ
دریائے سندھ کے نیچے شمال سے بحیرہ عرب کی طرف سفر کرنے والے سیلاب نے کافی
وقفہ دیا جس میں نیچے کی طرف والے علاقے انخلاء کے اقدامات کر سکتے تھے۔
میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ برفانی گلیشیرپگھلنے نےسیلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے- دریائے جہلم میں معمول کے مطابق بہاؤ ہے۔ یہ بارش سے آنے والے سیلاب تھے۔فہد سعید
اسی دوران اس سال کا سیلاب بیک وقت پاکستان کے جنوب میں واقع سندھ اور بلوچستان میں مون
سون کی موسلادھار بارشوں کی وجہ سے آیا ہے۔ شدید تباہی پھیلانے والا یہ سیلاب، طویل مدتی
اوسط سے تقریباً چار گنا، جون کے وسط میں شروع ہوا اور اگست تک جاری رہا۔ کچھ شمالی
اضلاع میں شدید بارشوں کے سبب اچانک آنے والے سیلاب کی وجہ سے یہ اور بھی خطرناک
ہوگیا جس کی وجہ شدید طوفانی بارشیں تھیں۔ سعید نے وضاحت کی کہ “سندھ اور بلوچستان
دونوں وہ علاقے ہیں جہاں مون سون کی بارشیں کم ہوتی ہیں، مگر یہاں کی زمینیں پانی میں
ڈوب گئیں اور ساتھ ہی ساتھ دریائے سندھ اور دریائے کابل میں بھی دریائی سیلاب آئے۔
مئی میں پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک میں اوسط سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی
تھی اور سیلاب کی وارننگ بھی دی تھی۔ سعید نے کہا کہ ملک میں موجودہ سیاسی انتشار کی
وجہ سے اس معلومات کو ملکی میڈیا سمیت سب نے اسکو نظر انداز کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کی طرح اس سال بھی ال نینو ساودرن اوسیلیشن, ایک بار بار چلنے والا
آب و ہوا کا نمونہ ہے جس میں وسطی اور مشرقی منطقہ حارہ بحر الکاہل میں پانی کے درجہ
حرارت میں تبدیلیاں شامل ہیں, اپنے لا نینا مرحلے میں دکھائی دیتی ہے۔ اس مرحلے کے نتیجے
میں ماضی میں جنوبی ایشیاء میں زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔
لا نینا ایک موسمی نمونہ ہے جو بحر الکاہل میں پایا جاتا ہے۔ یہ ال نینو کے موسمی نمونے کا
مخالف رخ ہے، جو کہ مشرقی استوائی بحر الکاہل میں سطح سمندر کے درجے حرارت کے گرم
ہونے کا مرحلہ ہے جس کے نتیجے میں ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں مشرق کی
طرف سے چلنے والی ہوائیں اور مون سون کے سسٹم متاثر ہوتے ہیں۔
امریکہ میں اوک رج نیشنل لیبارٹری کے ایک کمپیوٹیشنل کلائمیٹ سائنس دان معتصم اشفاق نے
تصدیق کی کہ: “لا نینا، جو مسلسل تین سالوں سے اب تک برقرار ہے، ممکنہ طور پر اس سال
پاکستان میں ہونے والی شدید بارشوں میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔”
اشفاق کے مطابق، “2010 کا سیلاب جولائی کا ایک واحد واقعہ تھا جبکہ اس سال کی تباہی کی
بڑی وجہ سندھ اور بلوچستان میں مسلسل بارشیں ہیں، جہاں شدید بارشوں سے نمٹنے کے لیے
کوئی مناسب انفراسٹرکچر ( سڑکوں، پلوں، اور نکاسی آب کا نظام) موجود نہیں ہے۔ یہ ایک غیر
معمولی واقعہ ہے۔” انہوں نے نشاندہی کی کہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی سمندروں کو گرم کر
رہی ہے، یہ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کے عمل کو بھی تیز کر رہی ہے اور شدید بارشوں
کا باعث بن رہی ہے۔
سعید نے اس فرضی حقیقت کو خارج از امکان قرار دیا کہ پاکستان کے گرتے ہوئے گلیشیئرز نے
موجودہ سیلاب میں کردار ادا کیا ہے۔”میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ گلیشئرز کے
پگھلاؤ نے سیلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے – دریائے جہلم [ جو کشمیر کے پہاڑوں میں برف
باری اور گلیشئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں ذخیرہ ہونے والے پانی سے بھرتا رہتا ہے] کا بہاؤ
معمول کے مطابق ہے۔ درحقیقت یہ بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب تھے ۔”انہوں نے کہا
کہ مارچ اور اپریل میں گرمی کی شدید لہر کے دوران شمالی پاکستان میں ایک بڑی اور کئی
چھوٹی برفانی جھیلوں کے پھٹنے کی وجہ سے بہت پہلے سیلاب آیا تھا۔
بھارت بھی سیلاب کی زد میں ہے
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونے والی شدید بارشوں کا حالیہ دور جس نے سندھ اور بلوچستان کو
سیلاب میں ڈالا ہے اس کی شروعات ہوا کے کم دباؤ سے ہوئی جو اگست کے آخر میں خلیج بنگال
میں نمودار ہوا۔ مون سون کے یہ بادل ہندوستان کے مشرقی ساحل پر اڈیشہ (سابقہ نام اڑیسہ) میں
برسے اور پاکستان پہنچنے سے پہلے ہندوستان سے گزرتے ہوئے تباہی کے نشانات چھوڑ گئے۔
موسم کی پیشن گوئی کرنے والی کمپنی اسکائی میٹ ویدر کے مہیش پلوات نے ہوا کے کم دباؤ
کے بارے میں کلائمیٹ ٹرینڈز کے لیے دی گئی ایک بریفنگ میں کہا کہ: “یہ ایک غیر معمولی
واقعہ ہے کیونکہ ہم موسمی نظام کو اس سمت میں سفر کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں۔ اس کو بڑی
حد تک موسمیاتی تبدیلی سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جس نے مون سون کے سسٹم کو تبدیل کر
دیا ہے۔ معمول کے حالات میں یہ سسٹم شمال مغربی ہندوستان میں سفر کرتے ہوئے شمالی
پاکستان تک پہنچتے ہیں۔ تاہم، مون سون کے سسٹم کی نقل و حرکت میں تبدیلی کی وجہ سے
ہمارے پاس جنوبی سندھ اور بلوچستان میں انتہائی تیز بارش ہوئی۔
مون سون سسٹم کی یہ حرکت ہند-گنگا کے میدانی علاقوں میں خشک سالی کا باعث بنی ہے جو
کہ پورے ہندوستان کو اناج فراہم کرنے والی اہم ترین زمین ہے اور اس سال اسی علاقے کے
بالکل جنوب میں بیک وقت سیلاب آیا ہے۔ خشک سالی نے بنگلہ دیش میں راج شاہی تک مشرق
کے علاقوں کو متاثر کیا ہے۔ بھارت میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے گزشتہ سیزن کے مقابلے
میں چاول کی کاشت کا رقبہ 8 فیصد کم ہے۔ ہندوستان دنیا کے چاول کی تجارت کا 40 فیصد ذمہ
دار ہے اور دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
مون سون کا یہ سسٹم مارچ کے شروع میں گرمی کی شدید لہر سے متصل شروع ہوا تھا جس نے
پہلے ہی ہندوستان اور پاکستان میں گندم کی پیداوار کو متاثر کیا تھا۔ آب و ہوا کے مطالعے سے
منسوب سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے گرمی کی شدید لہر کے امکانات
کو 30 گنا زیادہ کر دیا ہے۔
تعمیر نو کے لیے پاکستان کو اب پیسے کی ضرورت ہے۔
سعید، جو آب و ہوا سے منسوب مطالعے کے محققین میں سے ایک ہیں،نے کہا: “موسمیاتی مالیات
تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہمیں آب و ہوا سے جڑی ایک مضبوط منطقی بنیاد کی
ضرورت ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب مخصوص مطالعات کی
ضرورت پڑتی ہے۔ عنقریب [اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات] میں نقصان اور ضرر کا مقدمہ
بنانے کے لیے ہمیں یہ جاننے کے ضرورت ہے کہ اب و ہوا نے اس شدید تر تباہی میں کیا کردار
ادا کیا ہے۔
“دس ارب امریکی ڈالر کے نقصانات کی تشخیص 2010 کے سیلاب کے بعد کی گئی تھی۔ ہمیں
ابھی اس سال کے نقصانات کا تخمینہ مکمل کرنا ہے اور یہ بہت بڑا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت ان
جھٹکوں کو مسلسل برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمیں اس معاملے کو مضبوط سائنسی بنیادوں کے ساتھ
لے اس سال مصر میں بین الاقوامی برادی کے پاس جانا ہے۔
سیلاب کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پاکستان کو بیل آوٹ پیکج دلوانے میں جلدی کر رہا
ہے۔کچھ امیر ممالک نے گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت نے مدد کی پیشکش کی ہے لیکن
پاکستان اسے قبول کرے گا یا نہیں اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کی معیشت مسلسل ان جھٹکوں کو برداشت نہیں کر سکتیفہد سعید، کلائمیٹ اینالیٹکس
اب بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے ممالک کے ذریعے ہونے والے نقصان کی تلافی کا
سوال ہے۔ کشمالہ کاکاخیل، موسمیاتی مالیات کی ماہر جو کہ اقوام متحدہ کے گرین کلائمیٹ فنڈ کی
ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل تھیں، نے وضاحت کی کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تبادلہ خیالات میں
کوئی نئی بات نہیں تھی۔”1990 کی دہائی کے آغاز سے ہی، موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے
والی آفات کی زد میں رہنے والے ممالک ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ
موسمیاتی تبدیلی کے ان نتائج سے نمٹنے میں مدد کے لیے مالی امداد فراہم کریں جس سے عام
لوگ نبرد آزما نہیں ہو سکتے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اس طرح کی تجاویز کو مسلسل
ٹھکرایا جاتا رہا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا، “نقصان اور ضرر کی مالیاتی سہولت” کی قوت محرکہ نے گلاسگو میں
آخری موسمیاتی مذاکرات میں اہمیت ملی اور کچھ ترقی یافتہ ممالک نے حمایت کا اشارہ دیا۔
“مصر میں ہونے والے سالانہ مذاکرات میں پاکستان کو یقینی طور پر موسمیاتی خطرات سے
دوچار ممالک کے بڑے اتحاد میں شامل ہونا چاہیے جو ایک نئی مالیاتی سہولت یا نقصان اور
ضرر کے لیے وقف فنڈ کی وکالت کرتا ہے۔”
Pa
سعید نے کہا کہ پاکستان کو بھی اپنے گھر کو ٹھیک کرنے، 2010 اور 2022 کے سیلاب سے
سبق سیکھنے اور فوری طور پر موافقت پذیر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ملک
کے جنوب میں “مناسب نکاسی آب” کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔
اوک رج نیشنل لیبارٹری کے اشفاق نے نشاندھی کی کہ شہروں اور قصبوں کو اپنے انفراسٹرکچر
کو شدید بارش کے واقعات سے نمٹنے کے لیے، سیلاب سے حفاظت کے لئے دیواریں بنانے اور
گھروں کو دریا کے کناروں سے دور منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، کراچی
جو ملک کا اقتصادی مرکز ہے اس شہر میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے کوئی حقیقی انفراسٹرکچر
موجود نہیں ہے۔
اشفاق نے کہا کہ” یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔اس قسم کے سیلاب سے بحالی میں کئی سال لگتے ہیں۔
ہمیں ان آفات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔”
مترجم: عشرت انصاری